مذمت مگر کس کی ؟-محمد عامر حسینی

پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی پی پی اور ماضی کی بائیں بازو کے سیاسی گروپوں سے تعلق رکھنے والے کئی ایک افراد نے جن میں سے کچھ نام تو ایسے ہیں جو 80ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف پی پی پی کی جدوجہد میں بہت سرگرم رہے – ان سب لوگوں نے بلوچ یک جہتی کمیٹی اور اس کی سرکردہ رہبر خواتین سے “مطالبہ مذمت” پر بہت زور دیا اور دے رہے ہیں – حکومت جو کورس میں الاپ لگا رہی ہے کہ”مذمت نہیں کرتے، اس لیے یہ دہشت گرد ہیں/دہشت گردی کے حامی ہیں /نسل پرست ہیں ” یہ بھی اسی راگ کو الاپ رہے ہیں اور جو انھیں سمجھانے کی کوشش کرے یہ اسے بھی کوسنے دینے لگتے ہیں ۔
مجھے ان لوگوں کے حافظے کی کمزوری پر ترس آتا ہے اور ان کے ردعمل پر ہنسی آتی ہے۔

آج میری ملاقات کچھ ایسے پی پی پی کے ساتھیوں سے ہوئی جو جنرل ضیاع الحق کے مارشل لاء کے وقت 18 سے 25 سال کی عمر کے درمیان تھے ان میں سے کچھ ایف-اے /ایف ایس سی کے طالب علم تھے ، کچھ گریجویشن کر رہے تھے ، کچھ ماسٹرز کر رہے تھے اور چند ایک ماسٹرز کرنے کے بعد فارغ ہوئے تھے – ان میں دو ایسے تھے جنھوں نے پی ایس ایف پنجاب کا انقلابی اعلامیہ نامی ایک منشور لکھا تھا اور یہ کام انھوں نے اس وقت پی ایس ایف پنجاب کے صدر اسلم وسائل کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اس اعلامیہ نے پی ایس ایف کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ایک نئی زندگی دی اور اس وقت نئی پی ایس ایف نے جنم لیا تھا جو اقتدار کے دنوں کی پی ایس ایف اور اس کی سرکاری مراعات یافتہ قیادت سے نئی پی ایس ایف اور نئی قیادت تھی – سارے نوجوان تھے بلکہ یوں کہیں کہ انھوں نے نوجوانی کی سرحد میں قدم رکھا تھا- ان میں سے اکثر کے سامنے اقتدار کے دنوں کا بھٹو نہیں تھا بلکہ ایک قیدی ، مظلوم اور پھر تختہ دار پر جھول جانے والا بھٹو تھا جس میں اساطیری رنگ انھوں نے خود بھرے تھے – late 80s کے زمانے کا تو میں خود بھی عینی شاہد ہوں – لیکن ان لوگوں نے اس پوری دہائی کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اس دہائی کی پوری جدوجہد میں یہ پوری طاقت اور جوش و جذبے سے شریک تھے – میں نے بھی ان میں سے کچھ کے زیرسایہ طلباء سیاست کے ابتدائی سبق سیکھے تھے – یہ سارے کے سارے نوجوان بلکہ پی ایس ایف اور پی پی پی میں موجود نوجوانوں کی اکثریت میر مرتضٰی اور میر شاہنواز بھٹو کو آئیڈیلائز کرتی تھی اور انھیں موقع ملتا تو شاید یہ اسی راستے پر بہت آگے چلے جاتے اور شاید تاریک راہوں میں مارے جاتے ۔

اس زمانے میں تشدد اور دہشت کے استعمال کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے واقعات تو ان گنت ہیں – آج میرے ساتھ ملاقات کرنے والوں میں سے ایک جیالے ساتھی جو اس وقت 64 سال کے ہیں اپنی نوجوانی میں بطور طالب علم اپنے کالج کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی 19 انچ دیوار دھماکہ خیز مواد سے اڑا دی تھی اور اس الزام میں وہ گرفتار بھی ہوئے لیکن موقعہ کے گواہوں (جو آج بھی با حیات ہیں اور وہ کالج میں ایک مذھبی سیاسی جماعت کے طلباء ونگ کے سرکردہ رہنما تھے) اپنے بیانات سے منحرف ہونے کی وجہ سے الزام سے بھری ہوگئے تھے – اس زمانے میں سب سے بڑا ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ جسے ملک گیر شہرت ملی وہ چیف جسٹس ہائیکورٹ لاہور جسٹس مولوی مشتاق اور بھٹو صاحب کی حکومت کے دور میں متحدہ اپوزیشن کے مرکزی رہنماء چوہدری ظہور الٰہی پر قاتلانہ حملہ تھا جس میں مولوی مشتاق ہلاک ہوگئے تھے اور چوہدری ظہور الٰہی بال بال بچ گئے تھے ۔

اس واقعے کی ذمہ داری الذوالفقار نے قبول کی اور اس زمانے میں جنرل ضیاع الحق کی فوجی حکومت ، سرکاری ٹی وی ، اخبارات اور غیر سرکاری اخبارات میں شب روز یہ پروپیگنڈا ہوتا تھا کہ پیپلزپارٹی ایک دہشت گرد جماعت ہے جس کی قیادت کے روابط افغان کمیونسٹ حکومت، سوویت یونین، افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد ، سوویت ایجنسی کے جی بی ، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راء کے ساتھ ہیں اور یہ روابط میر مرتضٰی اور میر شاہنواز کے وساطت سے ہیں – پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت خاص طور پر بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پر شدید دباؤ تھا کہ وہ الذوالفقار کی مذمت کریں – جن نوجوانوں کے نام لیے جارہے تھے انھیں دہشت گرد قرار دیں – پیپلزپارٹی کی قیادت کا سرکاری موقف تھا کہ وہ فوجی آمریت کے خلاف عدم تشدد پر مبنی پرامن جمہوری جدوجہد کی قائل ہے اور وہ الذوالفقار کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتی اور نہ ہی تشدد اور انفرادی دہشت گردی کی قائل ہے – لیکن فوجی حکومت ، اس کی حامی مذھبی جماعتیں ، صحافی ، اخبارات اس وضاحت سے مطمئن نہیں تھے وہ میر مرتضی اور ان کے ساتھیوں کی مذمت چاہتے تھے – دوسرا واقعہ بڑا واقعہ لیبیا سازش کیس کا تھا اور پھر تیسرا بڑا واقعہ پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا تھا – ان ہی دنوں کراچی میں کئی ایک اردو اسپیکنگ مہاجر شہری بھی قتل ہوئے جن کی ٹارگٹ کلنگ کا الزام ایاز سموں اور ناصر بلوچ اور دیگر چند لوگوں پر لگا پھر اسلامی جمعیت طلباء کے کچھ کارکن طالب علم بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے – صوبہ خیبرپختون خوا میں کچھ بم دھماکے ہوئے جن کا الزام بھی الذوالفقار پر لگا اور کئی ایک دہشت کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کی اطلاعات میر مرتضٰی بھٹو کی جانب سے آئیں – ضیاع الحق حکومت نے ان واقعات کو بنیاد بناکرمئی 1983ء سے 1985ء کے درمیان 7 کے قریب پی ایس ایف اور پی پی پی کے نوجوانوں کو پھانسیاں بھی دیں – سندھ میں فوج نے کاروائیوں کے دوران پی پی پی کے درجنوں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کہا کہ وہ بھارتی ایجنٹ اور ملک میں دہشت گردی اور لوٹ مار کی کاروائیوں میں ملوث تھے- پی پی پی کی مرکزی قیادت سے لیکر مقامی سطح کی قیادت اور کارکنوں نے ٹارگٹ کلنگ، طیارہ اغواء اور دیگر دہشت گردی کے واقعات پر کبھی بھی الذوالفقار یا ان کاروائیوں میں نامزد کیے جانے والے افراد کی نہ تو مذمت کی نہ ہی انھوں نے ان سے اعلان لاتعلقی کیا – جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیا گیا تھا پی پی پی کی قیادت نے انھیں اپنا کارکن قرار دیا بلکہ ان کی رہائی کی تحریک بھی چلائی- محترمہ نے نظیر بھٹو کی جانب سے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت جن عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنے اسیر رہنماوں اور جنھیں پھانسی کا حکم دیا گیا تھا ان کی پھانسی رکوانے کے لیے ضمیر کا قیدی قرار دے کر ان کے ناموں کی لسٹ فراہم کی جن میں سے کئی پھانسی چڑھا دیے گئے جن میں جسٹس مشتاق کا مبینہ قاتل رزاق جھرنا بھی شامل تھا ۔

طیارہ اغوا کیس کے وقت جب سرکاری میڈیا پی پی پی اور میر مرتضٰی کو “قزاق ” قرار دے رہا تھا ایک پمفلٹ پورے ملک کے طول و ارض میں پھیل گیا جس کا عنوان تھا قزاق کون ؟اور جنرل ضیاء کو قزاق قرار دیا جا رہا تھا – اس پمفلٹ کی اشاعت اور تقسیم پر ملک بھر سے سینکڑوں لوگ گرفتار ہوئے اور جو مقدمہ عدالت میں چلا اسے پمفلٹ سازش کیس کہتے ہیں – پی پی پی کی قیادت کا مقدمہ صاف تھا وہ کہتی تھی کہ اس کی جدوجہد عدم تشدد پر مبنی پرامن احتجاجی تحریک ہے لیکن جن لوگوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو تشدد ہورہا ہے اس کی زمہ دار فوجی حکومت اور اس کے مظالم ہیں – پی پی پی کی قیادت “مذمت” نہ کرنے پر مسلح جدوجہد کرنے والوں کا سیاسی چہرہ کہلائی اس آڑ میں پی پی پی کے خلاف بدترین کریک ڈاون ہوا جو پکڑا جاتا اس پہ الذوالفقار کا رکن یا سہولت کار ہونے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا- صرف لاہور ہائیکورٹ کی 80ء کی دہائی کے فیصلوں کی پی ایل ڈیز اٹھاکر دیکھیں حقیقت پتا چل جائے گی ۔

بی وائی سی کی قیادت بھی یہی کہتی ہے کہ اس کی جدوجہد پرامن یے، عدم تشدد پر مبنی ہے اور وہ کسی بھی شخص کے نسلی تشخص اور شناخت کے سبب اس پر تشدد اور قتل کرنے کے حق میں نہیں ہے – لیکن یار لوگوں کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے “مذمت کیوں نہیں کرتی ” – کم از کم پی پی پی سے تعلق رکھنے والوں کو تو اپنا ماضی یاد ہونا چاہیئے – یا تو وہ اس وقت غلط تھے یا آج غلطی پر ہیں۔ بھٹو صاحب کے زمانے سے لیکر جنرل ضیاع الحق کے زمانے تک پیپلزپارٹی پر اندرون سندھ اور کراچی کے بلوچ اکثریت علاقوں سے اردو اسپیکنگ مہاجر کمیونٹی کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کا الزام بھی پی پی پی کی قیادت پر لگایا جاتا رہا اور پی پی پی کو سندھیوں کی شاونسٹ جماعت قرار دیا جاتا رہا – لیکن پی پی پی کی قیادت اسٹبلشمنٹ اور فوجی عسکریقیادت کو اس سب کا زمہ دار قرار دیتی تھی – پی پی پی پنجاب کے ساتھی رہنماء اور کارکن سندھ میں صوبائیت ، لسانیت کے نام پر تشدد اور دہشت گردی اور لسانی گروہوں میں منافرت کا زمہ دار اور سبب فوجی حکومت کو سمجھتی اور قرار دیتی تھی – پنجاب میں ترقی پسندوں نے حکومتی اور ریاستی بیانیے کو خریدنے اور اپنانے سے انکار کردیا تھا – اگرچہ پنجاب کا دایاں بازو اور ایک بہت بڑی دائیں سمت جھکاؤ رکھنے والی شہری درمیانی کلاس کی پرت سرکاری اور حکومتی بیانیہ خرید کر پی پی پی کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر زور دیتی رہی تھی – پنجاب میں اس بیانیہ کو نوے کی پوری دہائی میں نوازشات نے اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے رکھا تھا- یہ سب ماضی قریب کا قصہ ہے اور پنجاب میں ایک جیالے بلوچ خواتین بالخصوص ڈاکٹر ماہ رنگ پر انھی ہتھیاروں سے حملہ آور ہیں جن ہتھیاروں سے ضیاع الحق حکومت اور پھر نواز شریف کی قیادت میں ضیاء کی باقیات حملہ آور ہوتی رہی یہ سب ہتھیار اسٹبلشمنٹ کے پروپیگنڈا اسلحہ خانوں میں کل بھی تیار ہوتے تھے اور آج بھی تیار ہورہے ہیں – پی پی پی کے کئی ایک جیالے اپنے جمہوری شعور کو پس پشت ڈال کر ضیاء الحق شعور سے کام لے رہے ہیں اور اس زمانے کے مجاہد جیالے آج ملاقات کے وقت ان پر ہنس رہے تھے ان میں سے خاص طور پر وہ نوجوان جیالے تو بہت ہی قابل رحم ہیں جنھوں نے شعور کی آنکھ نواز شریف کے پہلے دو دور اقتدار میں کھولی یا وہ مشرف کے زمانے میں پل کر جوان ہوئے – مجھے لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے مگر پہلے وہ المیہ تھی آج وہ سوائے مذاق کے کچھ بھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply