افغان مہاجرین کی واپسی کے متعلق ایک غلط فہمی، جسکا شکار بعض دانشور بھی ہیں، وہ یہ ہے کہ مہاجرین کی واپسی کیلئے مناسب وقت نہیں دِیا گیا. دوسرا یہ کہ جن کے پاس Proof of Registration یعنی PoR کارڈ ہے انہیں کیوں واپس بھیجا جا رہا ہے؟
دیکھیں! پاکستان میں افغان مہاجرین 1979 سے تشریف لا رہے. پہلے روس جنگ، پھر قحط سالی اور پھر 9/11 کا امریکی حملہ. پاکستان پہ مہاجرین کا بے تحاشا بوجھ تھا جبکہ یہ بوجھ اٹھانے کیلئے پاکستان کے پاس وسائل نہیں تھے. مہاجرین کیلئے دی جانے والی امداد اُس معاشی و اقتصادی نقصان کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھی جو پاکستان برداشت کر رہا تھا. امریکی حملے کے فوراً بعد ہی پاکستان اِن افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا چاہتا تھا. لیکن افغان ریاست اور عالمی ادارے (بوجوہ) ایسا نہیں چاہتے تھے.
چنانچہ مارچ 2003 میں پاکستان، افغانستان اور UNHCR کے مابین برسلز Brussels میں ایک سہہ فریقی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق افغان حکومت اور UNHCR نے اس بات پہ رضامندی ظاہر کی کہ مہاجرین کو اگلے تین سال میں مرحلہ وار واپس بھیجا جائے گا. یعنی 2006 کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی. مزید یہ طے پایا کہ مہاجرین کی واپسی کیلئے، اور واپسی سے قبل انہیں امداد دینے کیلئے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے گی. یہ رجسٹریشن افغان حکومت کی درخواست پہ بھی تھی تاکہ وہ اندازہ لگا سکیں کہ کتنےلوگ واپس آئیں گے تاکہ افغانستان میں انکے لئے مناسب انتظامات کیے جاسکیں. گویا وہ PoR کارڈ، جسے آج پاکستان میں رہائش کا اجازت نامہ سمجھا جا رہا ہے اسکا اصل مقصد ہی افغانستان واپسی کیلئے رجسٹریشن کروانا تھا.
مذکورہ ڈیڈ لائن جو 2006 تک تھی، اسے بعد ازاں افغانستان کی بار بار درخواست پہ اور UNHCR کے کہنے پہ پاکستان کی وفاقی کابینہ آگے بڑھاتی رہی اور ہر بار 3/3 سال کی extension دیتی رہی. پہلے 2006/07 میں، پھر 2009/10 میں اور پھر 2012/13 میں توسیع کی گئی اور یہ سلسلہ 2024 تک آن پہنچا. 2024 میں ڈیڈلائن ختم ہونے پہ کچھ سختی کی گئی تاہم پھر ایک سال مزید دیا گیا اور جون 2025 تک کی مہلت دی گئی ہے. یعنی 2003 سے 2024 تک تقریباً 21 سال کا وقت دیا گیا. اگر واپسی کیلئے 21 سال کا وقت بھی کم ہے تو مزید کتنا وقت ہونا چاہیے؟
دراصل یہاں مقیم افغان باشندے اب بھی اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے 21/22 سال کی طرح اب کی بار بھی ایکسٹینشن مل جائے گی، لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا. تاوقتیکہ افغان حکومت TTP اور داعش کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرتی نظر آئے.
جو لوگ valid PoR کی موجودگی میں نکالے جانے پہ سراپا احتجاج ہیں انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ PoR کی اصل مدت 2006 تک تھی اور بعد کی ایکسٹینشن واپسی کے پروگرام سے مشروط تھی. نیز PoR پہ یہ سطر درج ہوتی ہے کہ اس کارڈ کا مقصد محض identification ہے. لہذا اسے “شہریت کی اجازت” یا “رہائش کی مستقل اجازت” سمجھنا ایک غلط فہمی ہے.

ایک مزید غلط فہمی، جو دانشوروں میں بھی موجود ہے، یہ ہے کہ پاکستان مہاجرین سے متعلق عالمی قوانین کا پابند ہے. گزارش یہ ہے کہ پاکستان 1951 کے Refugee Convention کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور نہ ہی اسکے اضافی پروٹوکول 1967 کا signatory ہے لہذا اس پہ وہ پابندیاں عائد نہیں ہوتیں جو مذکورہ عالمی دستاویزات میں درج ہیں. البتہ بین الاقوامی رواجی قانون یعنی International Customary law یقیناً مدنظر رکھا جانا چاہئے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں