ارادہ تھا کہ عید کے بعد عید کےسلام و دعا کے لئے والدین کی قبروں پر حاضری دوں گا مگر خود ہی بستر پر لڑھک گیا۔ آنکھیں بند کیں تو وہ سامنے کھڑی تھیں۔
پانچ فٹ پانچ انچ کے قریب قد، گندمی رنگ، ہاتھوں کی لکیریں جو کبھی نرم و گداز رہی ہوں گی کام کاج کی وجہ اب کھُردری ہو کر جغرافیے کی کتاب میں کسی پہاڑی سلسلہ کا نقشہ پیش کر رہی ہوں تو وہ میری دیدے بنتی ہیں۔ گھر اور زمینوں کی رکھوالی ’دیدے‘ کا کام تھا۔ امی کا یہ نام شاید ہم نے خود ہی رکھا تھا۔ گھر میں ایک عدد بھینس اور ایک عدد بیل جن کی دیکھ بھال اسی جان فشانی سے کی جاتی تھی جیسی ہماری۔ ہمیں صبح ناشتہ بعد میں ملتا، پہلے بھینس کا تازہ دودھ حاصل کیا جاتا، اور اس کے لیے پہلے گوبر اٹھاکر ’ماحول‘ خوشگوار بنایا جاتا۔ رات کے پچھلے پہر کسی وقت میری آنکھ چکی کی موسیقی سے کھل جاتی اور ہلکی مدھم روشنی میں دیدےکومکئی پیستے دیکھتا۔ صبح سویرے جب لوگ ابھی فجر کی نماز کے لیے بھی نہ اُٹھتے ہوں، سورج کو طلوع ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی ہوں، وہ اٹھتی اور اپنا کام شروع کر دیتی۔ چکی پیستے ہوئے وہ تو شاید تھکتی بھی ہوں گی لیکن میں چکی چلنے کی گھوں گھوں اور گھرر گھرر کو لوری سمجھتا اور چاہتا کہ یہ آواز کبھی ختم نہ ہو۔ اُس دور کی ساری مائیں شاید اسی طرح اپنے بچوں کو لوریاں سناتی رہی ہوں گی۔
اس کام سے فارغ ہو کر ہمارے پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان کرتیں۔ دن چڑھے جب ہم اسکول چلے جاتے تو گھاس کاٹنے چلی جاتیں ۔ اس مشقت کے بعد شاید خود بھی کچھ کھالیتی ہوں گی۔ کھانے کے بعد مویشی کھول کر ساتھ والی چراگاہ میں چلی جاتیں اور ظہر کے بعد، جب ہم اسکول سے لوٹتے، واپس آتیں۔ہمارے ہاں پانی کا مسئلہ شروع سے ہی رہا ہے اور اب تو حالات مزید دگرگوں ہو چلے ہیں۔کافی دور سے روزانہ پانچ چھےگھڑے پانی لانا انھی کی ذمہ داری تھی۔ سردیوں میں پانی کی شدید قلت ہوتی تو میلوں دور سے پانی لانا ہوتا۔ مال مویشی گرمیوں میں تو پاس کے جوہڑ سے پانی پی لیتے مگر سردیوں میں ان کے لئے بھی پانی لانا پڑتا۔ پانی کی طلب جب رسد سے زیادہ ہو جاتی تو محلے کے بزرگ راشننگ کرتے اور خواتین کی باریاں مقرر کر دیتے ورنہ سر پھٹول نہ بھی ہوتا تو شکوے شکایات اور بعض اوقات لہجے تلخ سے ترقی کر کے گالی گلوچ تک پہنچ جاتے۔یہ باریاں چوبیس گھنٹے جاری رہتیں۔ رات کی باری پر صبح سویرے ابھی مرغ نے بانگ بھی نہ دی ہوتی تو دیدے گھڑا لے کر کنویں کا رخ کرتیں۔
مسلسل کام کی وجہ سے ان کے ہاتھ پتھر جیسے ہو گئے تھے۔ میں نے کئی بار ان کے ہاتھوں کی پھٹی ہوئی لکیروں سے رستا ہوا خون بھی دیکھا ہے۔ خونِ جگر کی کیا حالت ہوتی ہو گی اس کا اندازہ شاید ہم آج نہ لگا سکیں۔ سخت، کھردرے اور ابھرے ہوئے لکیروں والے ہاتھ ہمارے چہرے اور سر پر پھرتے تو ریشم و اطلس کا لمس محسوس ہوتا۔ یہ سعادت ہمیں بڑھاپے تک حاصل رہی۔ بچپن اور عہدِ جوانی پلک جھپکتے ماضی کے گہرے غاروں میں محبوس ہوگئے، لیکن ان کے کھردرے ہاتھوں کا نرم لمس بھولے نہیں بھولتا۔ بچپن بیتا، جوانی آئی اور روٹی پانی کے لئے پردیس جانا پڑا تو انھی ہاتھوں کا لمس لئے رخصت ہوتا جو تنہائیوں میں ہمارا سہارا بنتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رخصت کرتے وقت آنکھوں کے اوپر ہاتھ رکھے اُس وقت تک تکتی رہتیں جب تک میں ٹیلے کے اُس پار اوجھل نہ ہو جاتا اور پھر سال بھر ان لفافوں کا انتظار کرتیں جو ڈاکیا انھیں ہر ماہ لا کر دیتا۔ سالانہ چھٹیوں گزارنے واپس آتا تو ایک دو ماہ کا پتا ہی نہ چلتا کہ کیسےیہ دن ہاتھ سے پھسل گئے۔
مجھے یقین ہے آج بھی اسی طرح میری راہ تکتی ہوں گی۔ خیر اب کےہم ،ایک دو ماہ کی نہیں ،لمبی چھٹی پر جائیں گے ۔۔ ۔ بس آج گئے یا کل۔۔۔مگر کیا اُن سےملاقات بھی ہو سکے گی؟ اپنے اعمال کی طرف دیکھیں تو کچھ خوف سا آتا ہے مگر اپنے رب کی رحیمی کی طرف نظر پڑتی ہےتو کچھ امید سی پیدا ہو جاتی ہے۔ جب تک سانس باقی ہے آنکھیں بند کر کے ندا فاضلی کے الفاظ دہراتا رہوں گا۔
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے! چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے کبھی محمد کبھی علی
مرغے کی آواز سے بجتی گھر کی کنڈی جیسی ماں
بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں