ویژنری  اور قوم پرست لیڈر قوم و ملک کو بناتا ہے /اطہر شریف

شملہ معاہدہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹونے اپنی زبردست اعلی درجہ کی سفارت کاری کر کے اندرا گاندھی کو مجبور کر دیا بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھٹو کو مذکرات کی دعوت دے
پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی دعوت پر 28 جون 1972ء کو بھارت کے صوبے ہماچل پردیش کے صدر مقام شملہ پہنچے۔ ان کی 19 سالہ صاحبزادی بے نظیر بھٹوان کے ہمراہ تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اپنا آدھا حصہ کھو چکا تھا‘ اس کے 93 ہزار افراد بھارت کی قید میں تھے اور مغربی پاکستان کا قریباً 5 ہزار مربع میل کا علاقہ بھی بھارت کے قبضے میں تھا گویا ان مذاکرات میں بھارت کو ہر طرح کی فوقیت حاصل تھی۔ صدر بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان 28 جون سے 2 جولائی 1972ء تک مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے بعض اوقات مذاکرات ایسے نازک دور میں داخل ہوئے کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ جیسے یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں گے اور برصغیر سے جنگ کے بادل کبھی نہیں چھٹیں گے لیکن بھٹو نے اپنی قابلیت اور ذہانت سے پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں نے سمجھوتہ کی ایک راہ نکالی اور 2 جولائی 1972ء کو صدر بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایک معاہدے پر دستخط کردیے جو شملہ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے تصادم اور مخالفت کی روش کو ترک کرکے برصغیر میں پائدار امن کے قیام کے لیے دوستی اور رواداری کے جذبے سے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اپنے اختلافات دو طرفہ بات چیت یا دوسرے پر امن ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کریں گے ایک دوسرے کے قومی اتحاد‘ علاقائی سالمیت‘ سیاسی آزادی اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے گریز کریں گے اور ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈا بند کردیں گے دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں اپنے اپنے علاقوں میں واپس بلانے پر بھی اتفاق کیا اور معاہدے کے رو بہ عمل ہونے کے بعد فوجوں کی واپسی شروع بھی ہوگئی۔ 1973ءمیں بھٹو کے دور حکومت میں چونکہ بھٹو مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ سے خاصے دباﺅ کا شکار تھے اس لیے انہوں نے قرضوں پر زیادہ اکتفانہ کیا اور اپنے دور اقتدار میں محض 0.3ڈالر ہی بیرونی قرض لیا،پاکستان کے معاشی حالات مشرقی پاکستان کی علحیدگیکی وجہ سے برے تھے۔ فوج کے حوصلے شکست خوردہ تھے۔ قوم مایوسی کا شکار تھی بھٹو نے بتایا ایک ویژنری لیڈر کیا ہوتا اور قوم پرست لیڈر کس طرح اپنی قوم کی حالت بدلتا ہے ۔20 دسمبر 1971 کو بھٹو کو ٹوٹا ہوا آدھا پاکستان ملا۔ معاشی حالات ابتر ۔بھٹو نے اپنے پورے دور حکومت میں 3 لاکھ ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ اپنی ذہانت اور سفارت کاری سے امداد لے کر ملک کو کھڑا کرنا شروع کیا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان کے تمام قرضے بھی پاکستان کے ذمے آہے۔1973 تک 325 ملین ڈالر کی امداد حاصل کی -مغربی کنسورشیم۔ نے 90 ٪ امداد فراہم کی۔پاکستان کی ایکسپورٹ میں ریکارڈ اضافہ ۔ 1972میں 589 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ۔1973 میں 790 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ۔ یہ صرف پہلے 3 سال کی کارکردگی دے رہا ہوں تا کے بغیرت سلیکٹڈ وزیراعظم نیازی کے دور حکومت سے مقابلہ۔ 1971 میں 2019 سے 1000 درجے برے حالات تھے۔ کاٹن کی ایکسپورٹ 110 ملین ڈالر میں 43٪ اور چاول کی 80٪ اضافہ 1973
زرمبادلہ کے ذخائر 1971 سے 3 گنا بڑھ گۓ -جون 1973 میں 500 ملین ڈالر تک پہنچ گۓ
دفاعی اخراجات میں ریکارڈ اضافہ-دفاعی اخراجات کا چارٹ
1969 2.4٪
1970 2.7٪
1971 3.2٪
1972 3.7٪
1973 4.4٪
1974 4.2٪

1973 میں جی ڈی پی کا 8٪ دفاعی اخراجات پر خرچ کیا گیا۔ سٹوڈنٹس کو ٹرانسپورٹ
میں کرایوں کی مد میں بیرون شہر سفر میں 50٪ رعایت اور اندرون شہر مفت سفر-
مشرقی پاکستان میں جوٹ، چائے ، مصالحے ، کاغذ۔ کی پیداوار اور ایکسپورٹ سے جو آمدن ہوتی تھی ختم ہو ہو گئ۔ ایکسپورٹ میں 27 ٪ اضافہ۔ متاثرکن ترقی پہلے 18 ماہ میں جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 6.5٪ اضافہ ۔۔1972 میں گندم کی پیداوار میں 5 ٪ اضافہ ۔ صنعتی پیداوار میں 6٪ اضافہ۔ 1973 میں امپورٹ میں 20 ٪ کمی۔ راشن ڈپو کے ذریعے کم آمدنی والی آبادی کو کم کمیت پر گندم اور چینی کی فروخت ۔ اتنے برے حالات میں شاندار کارکردگی۔ آج کشمیر پر اتنی ناقص کارکردگی۔ نہ بغیرت کو نہ ہی وزیر خارجہ کو کچھ پتہ ہے ۔ ان کی بندر کی طرح آنی جانیاں دیکھے
لیڈر کو بہانے نہیں آتے وہ صرف کام کرتا ہے جب کے جعلی لیڈر بغیرت کی طرح صرف بہانے بناتا ہے –

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply