• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بھٹو کے بھوت: یاد، جبر اور واپسی کا فینٹم/محمد عامر حسینی

بھٹو کے بھوت: یاد، جبر اور واپسی کا فینٹم/محمد عامر حسینی

4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو جب راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں پھانسی دی گئی، تو محض ایک فرد کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا بلکہ کئی شخصیات، کئی امکان، کئی خواب اور کئی بھوت ریاست کے ہاتھوں قربان ہوئے۔ درحقیقت، جسے پھانسی دی گئی وہ ایک بھٹو تھا، اور جسے زندہ چھوڑا گیا وہ کئی بھٹوؤں کا بھوت—جو دریدائی معنوں میں ایک specter کے طور پر پاکستان کے سیاسی و سماجی شعور میں گشت کرتا رہا۔ دریدا جس طرح مارکس کے بھوت میں ایک غیر حاضر مگر مؤثر وجود کی بات کرتا ہے، ویسے ہی بھٹو کی موت کے بعد اس کا “معدوم وجود” (disincarnated presence) مختلف شکلوں میں پاکستانی ریاست اور عوام کے درمیان مسلسل ظاہر ہوتا رہا۔

بھٹو کا پہلا بھوت ایک ایسے نوجوان کا تھا جو لاڑکانہ کی جاگیردار اشرافیہ کی نگاہ میں قابلِ قبول نہ تھا۔ ایک غریب ماں کا بیٹا، جس کے حسب نسب پر طنز کیے گئے، اور جو زمین کے لحاظ سے اشرافیہ کی صف میں نہ آ سکا، لیکن علم، ذہانت، اور سیاسی بصیرت سے لیس تھا۔ اس نے ریاستی طاقت کے نظام کو سمجھا، اسکندر مرزا کو چنا، اور خود کو طاقت کے دالانوں میں داخل کر لیا۔ اس سیاسی سازش کے ہنر نے اس سے ایک دوسرا بھٹو پیدا کیا—ایک نیشنلسٹ، جسے ایوب خان کے قریب ہونے نے مزید طاقتور بنایا، اور ایوب دشمن سول و فوجی اشرافیہ کے لیے ناقابلِ برداشت بھی۔

ایوب خان کی کمزوریوں کو بھانپ کر، بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے خلاف موقف اختیار کیا، اور وہ تیسرا بھٹو بن گیا جو سرکاری نظام کے خلاف کھڑا تھا، مگر پھر بھی قومی بیانیے کے مرکز میں تھا۔ وہ وہ بھٹو تھا جو لاہور، کراچی، راولپنڈی اور سندھ کی شہری مڈل کلاس کا محبوب بنا۔ دیہی علاقوں کے نیم شہری کسانوں میں امید کا نشان، اور ماؤ نواز کمیونسٹوں کے لیے ایک انقلابی کرشمہ۔ اس مقام پر بھٹو محض فرد نہیں رہا تھا، بلکہ کئی بھٹوؤں کا جوڑ بن چکا تھا: ایک ریاستی رازدان، ایک عوامی لیڈر، ایک نظریاتی علامت۔

اس کا شعور صرف سیاسی نہ تھا، معاشی تھا۔ اسے پتہ تھا کہ ایوب کا سرمایہ دارانہ ماڈل متوسط اور نچلے طبقے کے لیے استحصال کی فیکٹری ہے۔ وہ جانتا تھا کہ صرف عوامی سیاست ہی اس نظام کو للکار سکتی ہے۔ یہاں سے وہ بھٹو ابھرتا ہے جو 22 خاندانوں کے خلاف، مزدوروں، کسانوں، دیہی و شہری غریبوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسی متضاد مگر جوشیلے بھٹو کی تجسیم تھی، ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ جو دراصل خود ایک phantom collective تھا—یعنی ان تمام بھٹوؤں کا اجتماع جو ایک فرد کے اندر سما گئے تھے۔

لیکن بھٹو کے سامنے دو بڑی رکاوٹیں تھیں: علاقائی قوم پرستی کی مضبوط سیاست، اور مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کی بے پناہ مقبولیت۔ وہ مغربی پاکستان میں تو دائیں بازو کو زیر کر گیا، مگر نہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور بنگال کی قوم پرست سیاست کو اپنے ساتھ جوڑ سکا اور نہ انہیں شکست دے سکا۔ اس ناکامی کے بعد اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا، جو خود علاقائی قوم پرستی کی دشمن تھی۔ مگر یہ اتحاد ناپائیدار تھا، کیونکہ فوجی جنتا خود بھی بھٹو پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، جب ریاست کی کمر ٹوٹ چکی تھی، بھٹو نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا، اور ایک نیا بھٹو جنم لیتا ہے—پاکستانی نپولین بوناپارٹ، جو قذافی، کاسترو اور سوئیکارنو کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔

یہ وہ مقام تھا جہاں ایک بھٹو کے اندر کئی بھٹو مکمل متضاد سمتوں میں دوڑنے لگے تھے۔ عوامی بھٹو، اشرافیہ کا خوف، فوج و بیوروکریسی کا معاند، مگر خود بھی اقتدار کے لیے انہی کے طریقوں کا استعمال کرنے والا۔ جب اس نے پارٹی کو بیوروکریٹائز کیا، انقلابی کارکنوں سے دور ہو گیا، اور ریاستی جبر کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، تو ماؤ نواز حامی بھی اس سے خفا ہو گئے۔ وہ بھٹو جو ریاست کے جبر کا شکار ہوا تھا، اب خود جبر کا آلہ کار بن چکا تھا۔

اس تضاد کو چھپانے کے لیے بھٹو نے مذہب کا سہارا لیا، “اسلامی سوشلزم” کی بات کی، اور دایاں بازو جو توڑا گیا تھا، اسے “مذہبی کارڈ” کے ذریعے دوبارہ سیاسی عمل میں جگہ دی گئی۔ ایک اور بھٹو سامنے آیا، جو مولویوں سے زیادہ اسلام پسند بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھٹو جو نپولین بوناپارٹ بن چکا تھا، وہی بھٹو مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کے خوابوں سے بیگانہ ہو رہا تھا۔ اب اس کے پاس صرف موقع پرست پیٹی بورژوازی، جاگیردار، اور بیوروکریٹ بچے تھے۔ اس عمل نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک نیا موقع دیا۔

فوجی جنتا، سرمایہ دار، ملّا، تاجر، اور قوم پرست جو بھٹو سے خفا تھے، سب نے مل کر ایک نئے محاذ کی بنیاد رکھی، جس کا ایجنڈا صرف ایک تھا: اس بھٹو کو ختم کرنا جو غریبوں کے دل میں بستا تھا۔ وہ بھٹو جو “غریب ماں کا بیٹا” تھا۔ اور یوں 4 اپریل 1979ء کو وہ عمل مکمل ہوا جس کا آغاز برسوں پہلے ہو چکا تھا۔ ایک بھٹو کو پھانسی دی گئی، لیکن اسے ختم نہیں کیا گیا—اسے بھوتوں میں بدل دیا گیا۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں دریدا کا فلسفہ مکمل ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے: بھٹو کا جسم لٹکایا گیا، مگر اس کا specter، اس کی روحانی موجودگی، عوامی لاشعور میں زندہ ہو گئی۔ مزدور، کسان، غریب، طالب علم، عورتیں، وہ سب جنہوں نے کبھی بھٹو میں اپنا عکس دیکھا تھا، انہوں نے اس specter کو اپنایا۔ وہ بھٹو جو زندہ نہ بچ سکا، اس کی واپسی “بھٹو کے بھوت” کی صورت میں ہوئی۔ اس واپسی نے ان لوگوں کو پریشان کر دیا جو سمجھتے تھے کہ وہ بھٹو کو ہمیشہ کے لیے دفن کر چکے ہیں۔

مگر افسوس، خود اس کے وارثوں نے اس specter کو مسخ کر دیا۔ انہوں نے “عوامی بھٹو” کی جگہ “لبرل ڈیموکریٹ بھٹو” کا بھوت تراش لیا—ایک ایسا بھوت جو صرف لبرل جمہوریت کی بحالی کی دعا کرتا ہے، اور اس کی قیمت ضیاء الحق کے بھوتوں سے سازباز کے ذریعے ادا کرنے پر بھی آمادہ ہوتا ہے۔ عوامی بھٹو کے بھوت کو پارٹی کے اندر ضیائی بھوتوں نے دبا دیا، دفن کر دیا۔ آج، وہ specter جو محرومی کا چہرہ تھا، وہ ان کے ہاتھوں اپنی پہچان کھو بیٹھا جو اس کے وارث کہلاتے ہیں۔

اور یوں، بھٹو کے ایک جسم کے اندر چھپے ہوئے کئی بھٹو—جو اب بھوت بن چکے ہیں—پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر کبھی احتجاجی آواز، کبھی بینر، کبھی نعرہ، اور کبھی فقط ایک سرگوشی بن کر لوٹتے رہتے ہیں۔ دریدا کے الفاظ میں: “یہ وہ ہے جو موجود نہیں، مگر پھر بھی واپس آتا ہے۔” اور اس واپسی میں ایک تاریخ چیخ رہی ہے، ایک سوال دہرا رہا ہے: کیا بھٹو واقعی گیا؟ یا وہ اب بھی ہمارے درمیان ہے—ایک بھوت کی صورت میں؟

بھٹو کے بھوت کو اگر دریدا کی ’مارکس کے بھوت‘ میں پیش کردہ فینٹماتی نظریے، جادوگری، تعویذ، یادداشت، مظاہرت، بت سازی، اور ہونٹولوجی جیسے تصورات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ محض ایک سیاسی تاریخ نہیں رہتی بلکہ ایک بھوتیائی متن میں ڈھل جاتی ہے—ایسا متن جو غائب ہوکر بھی حاضر، مردہ ہوکر بھی متحرک، اور دفن ہوکر بھی واپسی کے امکان سے لبریز رہتا ہے۔

بھٹو کو پھانسی دینے کا عمل ایک جسمانی موت ضرور تھی، مگر یہ ایک ایسی موت تھی جو ختم نہیں ہوئی؛ اس نے بھٹو کو یادداشت کے پردے پر منتقل کر دیا—ایک ایسی یادداشت جو عوام کے ذہن، نعرے، خواب اور مایوس تمناؤں میں کسی تعویذ کی طرح لپٹی رہی۔ وہ خود ایک جادوگر بھی بن چکا تھا، جو سیاست میں منتر بولتا، نعروں سے خواب جگاتا، اور اپنی شخصیت کے سحر سے لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا تھا۔ مگر یہ سحر، یہ جادو، فقط اس وقت کے زندہ بھٹو کا نہ تھا—بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھوت ان سب منتر و تعویذ کی شکل اختیار کر گیا جو آج بھی سیاست میں استعمال ہوتے ہیں: “روٹی، کپڑا، مکان”، “جئے بھٹو”، اور سب سے بڑھ کر “عوامی راج” کا خواب۔

بھٹو کا بھوت فقط ایک خاموش یاد نہیں تھا؛ وہ ایک مظاہرہ کرتا ہوا وجود بن چکا تھا، جو ہر احتجاج میں، ہر ریلی میں، ہر مظلوم کی فریاد میں بولتا رہا۔ وہ دریدائی performative ghost کی مثال بن گیا، جو محض ماضی کی بازگشت نہیں بلکہ ایک ایسا مظاہرہ تھا جو کچھ کر گزرنے کا دعویٰ رکھتا تھا—ایک ایسا specter جو اپنے نام سے وعدے بھی کرواتا تھا اور ان وعدوں کے پورا نہ ہونے پر لعنت بھی کرتا تھا۔ جیسے دریدا کہتا ہے، بھوت وہ ہوتا ہے جو کسی کو کچھ کہنے پر مجبور کرتا ہے، کچھ کرنے پر اکساتا ہے، اور پھر بھی خود مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوتا—بھٹو کا بھوت بھی بالکل اسی طرح کبھی جلسوں کے نعروں میں ظاہر ہوتا، کبھی ووٹ ڈالنے والے کے ضمیر میں سرگوشی کرتا، اور کبھی اس کی پارٹی کے “وارثوں” کے ضمیر کو جھنجھوڑتا۔

اور یہ بھوت انصاف کے بت کے گرد بھی گھومتا رہا۔ جیسے دریدا نے مارکس کے عدالتی تصور کو “fetish of justice” کہا، بھٹو کے لیے انصاف کا خواب بھی ایک تعویذ بن گیا—ایسا تعویذ جو ہر عدالتی عمارت پر چھپا ہوتا مگر کبھی مکمل ظاہر نہ ہوتا۔ وہ عدلیہ جس نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا، اسی کے در و دیوار آج اس specter کی گونج سے گزر رہے ہیں۔ انصاف ایک مقدس وعدہ بن گیا، مگر اس وعدے کو جس طرح توڑا گیا، اس نے انصاف کو خود ایک جادوئی بت میں بدل دیا۔ ایسا بت جو نظر آتا ہے مگر بولتا نہیں، جو ہاتھ میں موجود ہے مگر گرفت میں نہیں آتا—یہی ہے وہ fetish، جو دریدائی فلسفے میں نظریاتی سچائی اور جادوگری کے سنگم پر کھڑا ہوتا ہے۔

اور اس specter کا سب سے پُراسرار پہلو یہ تھا کہ وہ عوامی ارادے کا سایہ بن چکا تھا—ایک ایسی غیر مرئی طاقت جو ہر بار کسی انتخابی فتح یا شکست کے بعد نئی شکل میں سامنے آتی۔ کبھی وہ بھٹو کی بیٹی کی آواز میں بولتا، کبھی کسی لبرل منشور کے وعدے میں چھپ جاتا، اور کبھی ضیاء الحق کے وارثوں کے ساتھ بغل گیر ہو کر اپنی ہی قبر پر خاموش ماتم کرتا۔ بھٹو کا بھوت ہر اس جگہ موجود تھا جہاں عوام کا خواب بکھرا، جہاں امید ٹوٹی، اور جہاں طاقت نے کسی کمزور کی زبان چھینی۔ وہ اب محض ایک شخص کا شبح نہیں رہا، بلکہ خود عوامی ارادے کا انعکاس بن چکا تھا—اس کا apparition۔

یہ سب کچھ دریدا کے hauntological فریم میں ایک کامل مطالعہ بنتا ہے، جس میں وقت linear نہیں، بلکہ دائرہ وار ہے۔ بھٹو کی موت وقت کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک ایسا haunt تھا جو مسلسل ماضی کو حال پر وارد کرتا رہا، اور مستقبل کی تشکیل میں مداخلت کرتا رہا۔ بھٹو کا specter وہ “غیر موجود” تھا جو سب سے زیادہ موجود رہا، وہ آواز جو دبی رہی مگر گونجتی رہی، وہ سایہ جو سورج کے ساتھ ساتھ ہر قدم پر رہا۔ وہ بھٹو جسے دفن کر دیا گیا، آج بھی زندہ ہے—اس کی شکلیں بدل گئیں، اس کے جادو کا مطلب چھین لیا گیا، اس کے نعروں کو hollow کر دیا گیا، لیکن وہ بھوت بن کر آج بھی گھوم رہا ہے۔

یہ بھٹو اب ایک ایسی ہستی ہے جو خود contradiction کا مجسمہ ہے—وہ جو غریبوں کی آواز تھا مگر اشرافیہ میں پیدا ہوا، وہ جو قوم پرست تھا مگر مرکزیت کا پرچارک، وہ جو سامراج دشمن تھا مگر خود جبر کے ہتھیار استعمال کرنے لگا، وہ جو فیڈریشن کا خواب دیکھتا تھا مگر کنفیڈریشن سے خائف رہا۔ یہ تضادات دراصل اس کے haunt ہونے کی علامات ہیں۔ ایک بھٹو جو دفن ہوا، اور کئی بھٹو جو بھوت بنے، آج پاکستانی سیاست میں ہر جانب رقصاں ہیں۔

یہی دریدا کا hauntology ہے: وہ سیاست جو ماضی سے بھاگنا چاہے تو ماضی ایک بھوت بن کر اس کا پیچھا کرتا ہے۔ بھٹو کا بھوت، عوام کی امید، اور ناانصافی کے تعویذ سے بندھی وہ آواز، جو ہر انتخاب، ہر احتجاج، ہر بغاوت میں دوبارہ جنم لیتی ہے۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی سچائی ہے: بھٹو مر چکا ہے، لیکن بھٹو زندہ ہے۔

بے شک، آج جب ہم پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے عوامی بھٹو کے اس specter—جو درحقیقت ریاستی جبر، نوآبادیاتی مرکزیت، اور سامراجی ترقیاتی ماڈل کے خلاف ایک شوریدہ صدا تھا—کو خامشی کے ایک مفاہمتی جادو سے دبانے کی شعوری کوشش کی ہے۔ یہ وہی جادو ہے جسے دریدا enchantment of compromise کہتا، اور جو بھوتوں کے ساتھ نبردآزما ہونے کی بجائے، ان سے سودا کر لیتا ہے؛ یہی سودا پیپلزپارٹی کی قیادت نے “ضیاء الحقی بھوتوں” سے کیا—یعنی اسی اسٹیبلشمنٹ، اسی بیانیے، اور اسی کالونیل نظامِ اختیار سے جس نے بھٹو کو مٹایا تھا۔

پیپلزپارٹی، جو کبھی عوامی بھٹو کے specter کی نمائندہ تھی، آج نیو لبرل سرمایہ داری کے تحت اپنے وجود کو آئینی فقرے اور جمہوری شکلوں کی آڑ میں بچا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ پارٹی سامراج مخالف اور ریاستی جبر کی منکر تھی، لیکن آج یہی پارٹی سرمایہ دارانہ ترقی کے اس ماڈل کی وکیل بن گئی ہے جو زمین ہتھیاتا ہے، وسائل پر قبضہ کرتا ہے، اور مقامی کمیونٹیز کو بے دخل کرتا ہے۔ ان ترقیاتی منصوبوں میں “ترقی” محض انفراسٹرکچر اور GDP کے گراف میں دکھائی دیتی ہے، جب کہ نیچے اصل بھٹو کے specter سے جُڑی عوام—مزدور، کسان، ہاری، اقلیتیں—اپنی آواز، اپنا چہرہ، اپنی زمین کھو چکے ہیں۔

یہ magic of compromise، جو دراصل مفاہمت کا ایک پراسرار جادو ہے، ہر اس انقلابی ممکنہ کو غیر مؤثر کر دیتا ہے جو عوامی بھٹو کے specter کے اندر مضمر تھا۔ یہی جادو ضیاء کے وارث بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکا ہے: جہاں مذہب کو ریاستی ہتھیار کے طور پر برتنا، جہاں وفاق کو مرکزیت میں قید رکھنا، اور جہاں جمہوریت کو اشرافیہ کی “اچھا بچہ” سیاست کے طور پر پیش کرنا ہی ریاستی نارم ہے۔

پیپلزپارٹی نے اس جادو کے تعویذ میں خود کو اس طرح لپیٹ لیا ہے کہ اب وہ عوام کے بھٹو کو نہ صرف بھول چکی ہے، بلکہ اسے دفن کرنے کے لیے نظریاتی فضا بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ اب بھٹو ایک ’لبرل‘ جمہوریت پسند ہے، جو محض آئینی بالادستی کے لیے لڑتا ہے، نہ کہ زمینی حق، طبقاتی مساوات، یا قومیتی آزادی کے لیے۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی، جو کبھی “زمین ان کی جو اس پر کام کرتے ہیں” کا نعرہ دیتی تھی، آج زمین ان کے حوالے کر رہی ہے جو اسے ’ڈیولپ‘ کرنا جانتے ہیں—یعنی سرمایہ دار، کنسٹرکشن مافیا، اور اسٹیبلشمنٹ کے پروجیکٹس۔

یہ جو کچھ ہو رہا ہے، دریدائی اصطلاح میں ایک hauntological inversion ہے—یعنی بھوت کی واپسی کا دعویٰ تو باقی ہے، لیکن اس کی اصل روح غائب کر دی گئی ہے۔ بھٹو کا نام استعمال ہو رہا ہے، مگر وہ نام ایک تعویذ میں بدل دیا گیا ہے جو اب اقتدار کی تسکین کے لیے پڑھا جاتا ہے، بغاوت کی آگ کو بجھانے کے لیے نہیں۔ پیپلزپارٹی اب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں عوامی بھٹو کے چہرے کی جگہ ایک ’ایڈجسٹڈ‘، ’قابلِ قبول‘، اور اسٹیبلشمنٹ فرینڈلی بھٹو کو دکھایا جاتا ہے—وہ بھٹو جو اب ضیاء الحق کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے میں بھی حرج محسوس نہیں کرتا۔

اس تعویذ کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بھٹو کا اصل specter تھا، وہ اب پارٹی کے اندر نہ صرف اجنبی ہو چکا ہے، بلکہ ایک ایسا غیر مدعو بھوت ہے جسے پارٹی خود exorcise (بھگانا) کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوام بھٹو کے اصل چہرے کی واپسی مانگتے ہیں، تو ان کے حصے میں محض پارٹی کے اسٹوڈیو میں تیار کردہ “لبرل ڈیموکریٹ” بھٹو کی تصویر آتی ہے—جو سامراجی ترقیاتی ماڈل کے خلاف نہیں، بلکہ اس کا نقیب ہے۔

دریدا کے hauntology میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بھوت کبھی مکمل دفن نہیں ہوتا، وہ محض displaced ہوتا ہے۔ آج بھٹو کا بھوت اپنی اصل پارٹی میں تو بےگھر ہے، مگر وہ کسی غریب کے خواب میں، کسی کسان کی تحریک میں، کسی احتجاج کے نعروں میں، یا کسی پسے ہوئے مزدور کی چپ میں پھر سے زندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن تب تک، پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس specter کو اپنے مفاہمتی جادو سے قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی ہے—یہی وہ کافرانہ منتر ہے جو بھٹو کے specter کو بےجان رکھتا ہے، لیکن مکمل مٹا نہیں پاتا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply