عورت سے محبت کا آرکی ٹائپ/قاسم یعقوب

عابد سیال کے مقبولِ عام پرپروگرام ’’ایک سوال‘‘ میں فرخ ندیم سے گفتگو دلچسپ رہی۔ فرخ نے اپنی گفتگو میں سماج کے آرکی ٹائپل تصورات کے پولیٹکل ہونے کی روایت کو کھوجنے کی کوشش کی۔ مزے کی بات کرتے ہوئے فرخ نے بتایا کہ ہمارے ہاں عاشق کا تصور پدرسری ہے۔یعنی مرد، عورت کے ذہن اور جسم کو جتنااچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہے، اتنا ہی بڑا عاشق کہلاتا ہے۔ فرخ نے کہا کہ حملہ آور منگول بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ پہلے علاقے کی ریکی کرتے تھے، مخبری کرواتے تھے، پھر مقامی افراد کو توڑتے تھے۔ بعد میں علاقے پر حملہ کرکے قبضہ کر لیتے تھے۔یعنی ایک سکیم ہوتی تھی جو آج بھی اسی طرح ہماری فلموں میں دکھائی جاتی ہے۔اس تصورِ محبت کو ڈی پولیٹیکل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی محبت پوری کی پوری سرمایہ دار مزاج کی ہے۔ محبت کی سطح برابری کی نہیں ہے۔فرخ نے دلچسپ بات سنائی کہ اکثر میرے سفر کے دوران دریائے چناب آتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ یہی وہ دریا ہے جس کے ساتھ سوہنی مہیوال کی داستان وابستہ ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک کنارے سےسوہنی تیرتی ہوئی آتی اور اپنے محبوب مہیوال سے ملتی۔ ایک دفعہ سوہنی کچے گھڑے کے ٹوٹنے کہ وجہ سے ڈوب گئی۔ (ویسے سوہنی کا پکے سے کچا گھڑا اُس کی ساس نے بدلا تھا اور یہ الگ بات کہ مہیوال بھی سوہنی کو بچاتے ہوئے پانی میں کود کر مر گیا تھا) فرخ نے بیٹی کا ردعمل بتایا کہ آخر مہیوال ہی کیوں ایک کنارے سے دوسرے کنارے آتی تھی؟ مہیوال مرد تھا وہ کیوں نہیں تیر کے سوہنی سے ملنے جاتا قربانی عورت ہی کی کیوں ہوتی ہے؟
فرخ کی اس مثال سے مجھے بدھا کی بیوی ’یشودھرا‘ یاد آئی۔ بدھا نروان لینےتو چل پڑا تھا مگر اُس کی بیوی اور نومولودبچے پر کیا گزری تھی؟ اُس کے نروان کی قربانی تو بالاخر ایک عورت نے دی۔ جب بدھ نے 29 سال کی عمر میں اپنا گھر بار چھوڑ کے تپسیا کی غرض سے جنگلوں کا رُخ کر لیا تو اُس کے پیچھے اُس کی ایک بیوی ’یشودھرا‘ اور ایک بچہ’راہل‘ بھی تھا۔ بدھا کو 35 سال کی عمر میں نروان ملا مگر وہ ریاضت میں مصروف رہا اور کوئی 12 سال بعد 41 سال کی عمر میں گھر لوٹا۔ نروان کی اس خش خبری کا جشن مناتے ہوئے بھکشو بھول جاتے ہیں کہ اُس کی بیوی اور بچے پر کیا گزری ہوگی۔ یہی بتایا جاتا ہے کہ اُس نے صبر کیا اور نیک طینت رہی۔ یشودھرانے12 سال تک کیسے بسر ہوگی؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ جب بدھا گھر سے نکلا اُس وقت اُس کے بچے راہل کی عمر صرف 7 دن یعنی ایک ہفتہ تھی۔ ایک ہفتے کے بچے کو چھوڑ نا، ایک عورت کےبچے کے باپ چھننے کا غم بھی تھا۔ بدھا نے جو فلسفۂ حیات اخذ کیا وہ یہ تھا کہ دکھوں سے نجات کا واحد راستہ خواہشات سے نجات ہے مگر کیا بدھا کو علم تھا کہ یشودھرا کی خواہش اُسی جگہ ٹھہری ہوئی تھی اور آئے دن بڑی ہو رہی تھی۔ راہل 12 سال کا ہو چکا تھا جب بدھا اُسے ملنے لوٹا ۔ بدھا خواہشوں کو مارنے کا نروان لایا مگر اُس کے بچے راہل کی خواہش تو روز بروز جوان ہو رہی تھی۔ بھلا ایسے خواہشیں مرتی ہیں۔
فرخ کی باتیں محبت کے اُس روایتی تصور کی ردتشکیل کرتی ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے پولیٹیکل ہے، مقامی تصورات کا دفاع کرتی ہے۔جو سوئمبر کی شکل میں عورت کی فتح سے لے کر ستی کی موت تک عورت کی قربانی مانگتی ہے۔ کہیں بطور شے بننے کی اور کہیں موت کو قبول کرنے کی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply