کچھ تحریریں پڑھ کر لکھنے والے یا لکھنے والوں کی جہالت پر سر پیٹ لینے کو جی کرتا ہے ، لیکن کچھ تحریریں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے ایک دو اقتباس پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے ، کہ یہ کسی دانشور ، مفکر ، کسی دور اندیش شخصیت کی تحریر یا تحریریں ہیں ۔ بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو ، اپنے طرز اور مواد سے لکھنے والے یا لکھنے والوں کے ، نام بتا دیتی ہیں ۔ مثال میں علامہ شبلی نعمانی کا نام لیا جا سکتا ہے ، اور اُن کی تحریروں کے نمونے پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر مقالے ہوں ، انشائیے یا تعزیت نامے ، مراسلے اور مکتوبات یا مختلف موضوعات کی کتابیں شبلی نعمانی کا ہر صنف میں اپنا ایک الگ ہی رنگ ہے ، ایک ایسا رنگ جس کی نقل مشکل ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی کی نثر کے تذکرے کی وجہ ، ایک نئی کتاب ’ باقیاتِ نثرِ شبلی ‘ ہے ۔ اِس کتاب کے مؤلف بھی ’ عاشقِ شبلی ‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ہیں ۔ وہی جنہوں نے شبلی نعمانی کی حیات اور خدمات کے مختلف گوشوں کو یا یہ کہہ لیں کہ شبلی کی حیات اور خدمات کے چھپے ہوئے گوشوں کو ، روشنی میں لانے کے لیے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ ، عوارض اور پریشانیوں کے باوجود ، صرف کر دیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اب تک شبلی پر کوئی تین درجن کتابیں دے چکے ہیں ، اور مزید کتابیں منصوبے میں ہیں ۔ اللہ رب العزت انہیں باصحت رکھے ، آمین ۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی ۵۷ سال کی زندگی میں اتنا لکھا ہے کہ ، بہت کچھ شائع ہو جانے کے باوجود ، اُن کا لکھا ہوا بہت کچھ دریافت ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے نو دریافت مکتوبات ، خطبات اور مراسلات و دیگر موضوعات کی تحریریں جمع کرکے شائع بھی کی ہیں ، لیکن یہ سلسلہ تھما نہیں ہے ۔ زیر تعارف و تبصرہ کتاب ’ باقیاتِ نثرِ شبلی ‘ ایسی ہی ایک کتاب ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ڈاکٹر صاحب علامہ شبلی کے نوادرات کی دریافت کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ۱۹۱۴ء میں دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے قیام کے بعد جانشینِ شبلی مولانا سید سلیمان ندوی ( 1884 ۔ 1953) نے مقالاتِ شبلی کے ۸ حصے ( مذہبی ، ادبی ، تعلیمی ، تنقیدی ، تاریخی ، تاریخی دوم ، فلسفیانہ ، متفرقات) موضوعات کے لحاظ سے ترتیب دے کر شائع کئے ۔ اس کے بعد نوادرِ شبلی کی بازیافت اور اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس کا آغاز معارف اعظم گڑھ سے ہوا ، جس میں علامہ کے متعدد نوادر شائع ہوئے اور یہ سلسلہ اب تک قائم ہے ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ رسائل و جرائد میں علامہ شبلی کے نوادرات کی دریافت اور اشاعت کا سلسلہ قائم رہا اور ان کے نہایت عمدہ مضامین و مقالات ، خطوط و خطبات ، مکتوبات و مراسلات اور منظومات دریافت ہوکر منظر عام پر آتے رہے ۔ ’ باقیات شبلی ‘ ( ۱۹۶۴ء ) کی اشاعت کے تقریباً نصف صدی بعد راقم کی تلاش و جستجو کے ثمرات سامنے آئے اور مدونہ کتب و مقالات کا اشاعتی سلسلہ شروع ہوا ۔‘‘ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے علامہ شبلی نعمانی کی حیات و خدمات کے اس اشاعتی سلسلے کے تحت کوئی تین درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، جن میں سات کتابیں نوادراتِ شبلی پر ہیں ، نیز ’ بیانں شبلی ‘ کے نام سے چھ جلدیں شائع ہوئی ہیں جن میں شبلی کے نوادرات شامل ہیں ۔ ایک کتاب ’ علامہ شبلی اور انجمن ترقی اردو ‘ کے نام سے ہے ، جس میں ایک نادر تحریر بعنوان ’ داستانِ انجمن : علامہ شبلی کے قلم سے ‘ شامل ہے ۔ اور یہ نئی کتاب مذکورہ کتابوں میں ایک اضافہ ہے ۔ اس سے کچھ قبل ہی ، ڈاکٹر موصوف کی مرتب کردہ باقیات کی ایک ایسی ہی کتاب ’ باقیاتِ شعرِ شبلی ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔
کتاب ’ باقیاتِ نثرِ شبلی ‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔باب اول کا عنوان ہے ’ علامہ شبلی نعمانی ‘ ، اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ، اس میں علامہ کی حیات و خدمات کا ذکر ہے ۔ اس باب میں مختصراً علامہ شبلی کی کئی تحریکوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، جیسے کہ ’ تحریک وقف اولاد ‘ اور ’ تعطیل جمعہ اور شدھی تحریک ‘ ۔ ان دونوں تحریکوں کی بنیاد پر آج ’ وقف بل مخالف تحریک ‘ چلائی جا سکتی ہے ۔ اس باب میں مختصراً ندوہ میں ان کی مخالفت کا بھی ذکر کیا گیا ہے ، جسے پڑھ کر یہ افسوس ناک اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم قوم نے ، بالخصوص اس کے اہل اللہ اور عالی نسب نے ہمیشہ اُن شخصیات کو ، جو ملت کت لیے فکرمند رہتی ہیں ، تنگ کیا ہے ۔ علامہ شبلی بھی تنگ کیے گیے جس کے سبب ندوہ چھوڑ گیے ۔ باب دوم ’ مضامین ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں ۹ نوادرات شامل ہیں ۔ ایک مضمون ’ ایک مبسوط اور مستند سیرتِ نبوی ﷺ کی ضرورت ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس مضمون میں علامہ شبلی نے سیرت نبوی ﷺ لکھنے کے لیے جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ممکن ہے گنوا دی ہیں ، اور لکھا ہے : ’’ یہ سب سامان مہیا ہو تو اردو زبان میں ایک مبسوط اور مستند سیرت نبوی ﷺ لکھی جا سکتی ہے ۔ قوم اور ملک کی تشنہ لبی اگر اسی حد تک ہے کہ ایسے بڑے پین ( خاکہ ) کی صورت دیکھ کر دیکھ کر ڈر جائے تو اس خواہش کے ( کہ آپ یعنی شبلی سیرت کا کام آگے بڑھائیں ) اظہار کی ضرورت نہیں اور اگر قوم اس سامان کے مہیا کرنے پر آمادہ ہے تو شبلی یا شبلی نہ سہی اور بہت سے لوگ نکل آئیں گے جو اس کام کو انجام دیں گے ۔‘‘ مگر علامہ شبلی نے سیرت نبی ﷺ کا جو خاکہ تیار کیا تھا ، اس کی بنیاد پر سیرت کی پہلی جلد لکھی ، لیکن باقی کی جلدیں لکھنے کی مہلت موت نے نہ دی ، مگر کام رکا نہیں ، ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے باقی کی جلدیں مکمل کیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ علامہ شبلی نے سیرت نبوی ﷺ لکھنے کا جو خاکہ تیار کیا تھا ، اس پر کوئی آج نئے سرے سے ، جبکہ جدید ذرائع حاصل ہیں ۔ باب سوم ’ تقریظات ‘ ، باب چہارم ’ مکتوبات ‘ ، باب پنجم ’ مراسلات ‘ اور باب ششم ’ متفرقات ‘ پر مشتمل ہیں ، اور یہ تمام چیزیں نوادرات میں سے ہیں ، یعنی علامہ شبلی کی یہ تحریریں اس سے پہلے دریافت نہیں ہوئی تھیں ۔ ایک مضمون ندوۃ العلماء پر ہے جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ کو ندوۃ سے کس قدر محبت تھی ۔ عنوان ہے ’ ندوہ میری تمام تر زندگی کا محور ‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا انتساب اپنے برادرِ مکرم شیخ محمد مقصود کے نام کیا ہے ۔ کتاب کے صفحات ۱۴۴ ہیں ، اور قیمت ۲۴۰ روپیے ہے ۔ اسے ابو طلحہ اصلاحی صاحب نے اپنے ادارے ’ البلاغ پبلی کیشنز ، نئی دہلی ‘ سے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے 9838573645 / 9971477664 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس کتاب کے لیے مبارک باد ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں