پی ایس ایل فائنل کا کامیاب انعقاد،سیکیورٹی ادارے داد کے مستحق
طاہر یاسین طاہر
پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں کامیاب انعقاد عام شہری کا ریاستی اداروں پر اعتماد بڑھانے کا سبب بنے گا۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ پاکستان میں کھیل کے میدان اجڑے ضرور ہیں جبکہ لوگوں کی تفریح کے سامان محدود سے محدود تر کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ملک میں علاقائی سطح اور قومی سطح پر کھیلیں ہوتی ہی رہتی ہیں،جبکہ قائد اعظم کر کٹ ٹرافی سمیت مختلف اداروں کی کرکٹ ٹیمیں بھی مختلف اوقات میں باہم کھیلتی رہتی ہیں۔ مگر انٹرنیشنل سطح کی کھیلوں کی سرگرمیاں ہمارے ہاں کم و بیش ایک عشرہ سے نہیں ہو رہی ہیں۔زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کا حوالہ بعض اوقات دیا جاتا ہے مگر عالمی سطح کی ایک تیسرے درجے کی ٹیم کا دورہ قابل ذکر چنداں نہیں۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر لاہور ہی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد تو کسی بڑی ٹیم یا غیر ملکی کھلاڑیوں کا پاکستان آ کر کھیلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پی ایس ایل ایڈیشن ٹو کا آغاز ہوا تو اس کا فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان کرد یا گیا۔ مگر دبئی و شارجہ میں جب یہ ایونٹ شروع ہوا تو اس ایونٹ کے ابتدائی چند میچز کے بعد لاہور کی مال روڈ پر خود کش دھماکہ ہو گیا۔اس خود کش دھماکہ کو اس زاویے سے بھی دیکھا گیا کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں کھیل کے میدان ویران رہیں،اور یہ کہ پی ایس ایل ،کا فائنل لاہور میں نہ ہو سکے۔ابھی اس حوالے سے غور و فکر جاری ہی تھا کہ سہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں خود کش دھماکہ ہو گیا۔دونوں واقعات میں سینکڑوں افراد زخمی اور درجنوں شہید ہوئے۔بے شک پی ایس ایل میں شریک غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھی اس کا اثر لیا ہوگا۔البتہ ریاستی اداروں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔آرمی چیف نے لاہور کا دورہ کیاا ور واضح کیا کہ اگر پی سی بی ،پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانا چاہے تو ہر ممکنہ سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔وزیر اعظم صاحب کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں ہی کرایا جائے گا۔بے شک کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے چھ غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آ کر کھیلنے سے معذرت کی مگر پاکستانی قوم ان کی بھی مشکور ہے کہ وہ دبئی تک تو پاکستان کے لیے کھیلنے کو آئے۔
ہمیں پشاور زلمی میں کھیلنے والے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں،بالخصوص ڈیرن سیمی کی قدر کرنا چاہیے کہ وہ اپنے تمام غیر ملکی کھلاڑیوں سمیت پاکستان آئے اور بے خوف ہو کر آئے،اسی طرح سر ویون رچرڈز بھی ہمارے سلام اور محبت کے مستحق ہیں جنھوں نے پاکستان کو ہم پاکستانیوں جتنی ہی محبت دی۔یہ غیر ملکی کھلاڑی اس وجہ سے پاکستان آئے کہ انھیں یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ سیکیورٹی ادارے پوری طرح چوکس ہیں اور پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پہ ہے۔اور انشا اللہ دہشت گردی یا تخریب کاری کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا۔بے شک ایسا ہی ہوا۔لوگ جوق در جوق قذافی سٹیڈیم آئے اور خوب انجوائے کیا۔سیاستدان بھی عوامی رنگ میں رنگے رہے۔ ہاں البتہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے پروپیگنڈا بھی کیا اور شور مچاتے رہے کہ قذافی سٹیڈیم کے آس پاس کی مساجد سے اذانیں بند ہو گئیں اور مسجدوں کو تالے لگوا دیے گئے ہیں۔ جبکہ اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوا،یہ صرف سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے، اور عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کر کے اپنے مذموم مقاصد کے کام میں لانے کی ایک سعی نا تمام تھی۔
ہمیں حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اتنی بڑی سیکیورٹی میں کرکٹ کا ایک تیسرے درجے کی لیگ کا میچ کروانا ہماری کلی کامیابی نہیں بلکہ کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے کے لیے عملی کوششوں کی ایک ابتدائی صورت ہے۔جس میں ریاستی ادارے عوام کو متحرک کرنے میں پوری طرح کامران رہے اور لوگوں نے سیکیورٹی اداروں پر بھر پور اعتماد بھی کیا۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پاکستان سپر لیگ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے لاہور میں انعقاد کے حوالے سے خصوصی پیغام میں کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پی ایس ایل فائنل کے ملک میں انعقاد نے ہمیں مزید مضبوط اور متحد کردیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے دنیا کو یہ ثابت کردیا کہ ہمارے تنہائی کے دن اب ختم ہوچکے ہیں۔مزید کہا کہ ہمیں خوشی ہے عوام کو ان کے پسندیدہ کھیل کے لیے خوشگوارماحول فراہم کرسکے۔بے شک عوام نے اپنے پسندیدہ کھل کو نہ صرف قذافی سٹیڈیم میں آ کر بلکہ بڑے شہروں میں عوامی مقامات پر قد آدم سکرین لگا کر بھی میچ کو دیکھا۔اس کھیل کے انعقاد پر جہاں پی سی بی،پنجاب حکومت،سیکیورٹی ادارے داد و تحسین کے مستحق وہیں پہ عوام بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں زبردست خراج محبت پیش کیا جائے کہ انھوں نے ہی بالاآخر گراونڈ میں آکر سیکیورٹی اداروں اور کھیل و کھلاڑیوں کا مان بڑھایا ہے اور ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ہم ایک بار پھر اہلِ وطن کی جانب سے غیر ملکی کھلاڑیوں اور آفیشلزوکمنٹیٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے عوام اور اداروں پہ اعتماد کیا اور دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو شکست دینے کی اس مہم میں ہمارا ساتھ بنے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں