بیسویں صدی کا دوسرا عشرہ اور بڑی اماں/ اقتدار جاوید

ایک بے دردیوار صحن تھا اور چار گھر۔ان چاروں گھروں کے سامنے کوئی دیوار کوئی دروازہ نہیں تھا۔ایک گلی تھی جو گاؤں کے ٹبے سے بائیں ہاتھ مڑتی اور کھیتوں کھلیانوں کو نکل جاتی۔یہ چار گھر گاؤں کے ایک Slum Area کے آخر میں واقع تھے جہاں دو گلیاں اور آٹھ گھر اور بھی تھے ۔گاؤں سے باہر گاؤں کے ایک کونے میں بسے چار گھر۔اسی ایک گھر سے ہماری بڑی اماں ہمارے والد کے گھر بیاہ کر آئیں۔نہ ڈولی نہ گیت نہ باراتی نہ باراتیوں سے سہیلیوں کے مذاق نہ گاؤں سے باہر پھول چننے کی رسم کے واسطے لڑکیوں کے جھرمٹ ۔بڑی اماں اس گھر میں آئیں تو والد نے ایک چھوٹے سے گھر کے چارچفیرے دیوار کھینچ دی۔بڑی اماں جو برسوں سے بے درودیوار صحن میں رہتے ہوئے تنگ آ چکی تھیں، نے پہلا سکھ کا سانس لیا۔ والد ان کے لیے تین ریشمی سوٹ لے کر آئے جو انہوں نے بہتے اشکوں سے پہنے پھر وہ سوٹ تاعمر اس لکڑی کے صندوق میں اتر گئے جو بڑے کمرے کے بچھی چارپائی کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔تب بڑی اماں کی عمر یہی چودہ برس ہو گی۔دو سال کم یا دو سال زیادہ کسی کو علم نہیں۔
بڑی اماں ہم سب بہن بھائیوں کی پیدائش سے پہلے انتقال کر چکی تھیں۔
والد ہماری بڑی اماں کی بات کرتے تو غمگین نہ ہونے کی جیسے کوشش کرتے۔ان کی تعریف میں ایک آدھ جملہ بولتے اور خاموش ہو جاتے۔ والدہ خوش ہو کر کسی نہ کسی بہانے سے ذکر کر لیتی تھیں۔بڑی اماں کی والدہ اپنی بیٹی کی وفات کے بعد ایک عشرہ تک زندہ رہی تھیں۔بڑی اماں کی والدہ ہماری نانی اماں کی خالہ تھیں اور بڑی اماں ہماری والدہ کی سگی خالہ تھیں۔ یہ رشتہ سمجھنے سمجھانے کے لیے ذرا پیچیدہ ہے۔ہمارے لیے سمجھنے کے لیے قطعاً مشکل نہ تھا۔لیکن قاری کے لیے اتنا جاننا کافی ہو گا کہ وہ ہماری والدہ کی سگی خالہ تھیں۔
اندرون لاہور کی ایک تاریک گلی میں ایک نانبائی کی دوکان تھی۔یہ یکی دروازے کے اندر کئی پیچ و خم کھانے کے بعد ایک اور چھوٹی اور چار گھروں پر مشتمل گلی گھنگھرو سازاں میں پہنچتی تھی۔جہاں ایک طرف مسجد عبدالعزیز تھی اور اس کی بائیں جانب ایک چھپر نما گھر تھا جس میں ایک نان بائی اپنی اکلوتی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔پچھلی صدی کی بیس کا عشرہ تھا۔ یہ عشرہ ہندوستان کی مسلم تاریخ میں کیا اہمیت رکھتا ہے اس کے بارے میں دو تین واقعات کا ذکر ہونا ضروری ہے۔رام پال لاہور کا ایک ناشر تھا جس نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں ایک اہانت آمیز کتاب شائع کی تھی۔کلکتہ اور چٹاگانگ سے لے کر لاہور تک ایک ایسی آگ لگی ہوئی تھی جس کے بجھنے کا کوئی امکان نہ تھا۔یکی گیٹ کیا شہر کے ہر کونے میں راج پال کو سبق سکھانے کی باتیں ہوتی تھیں۔راج پال کے بارے میں یہ باتیں پندرہ سالہ لڑکے نے بھی سنیں۔وہ لڑکا کسی دور افتادہ گاؤں سے یا رام پور سے کہیں رکتا کہیں دن کاٹتا کہیں نیند پوری کرتا گرتا پڑتا اندرون یکی گیٹ کے نان بائی کی تندور پر پہنچا۔نان بائی نے لڑکے کو غور سے دیکھا چھریرا جسم، ستواں ناک، کھلی پیشانی، تیز آنکھیں اور آنکھوں میں اداسی۔ اسے یہ لڑکا کسی اور دیس کا مسافر لگا جو راستہ بھولتا یہاں آ گیا ہو۔نانبائی کے سینے میں ایک ٹھنڈک اترنے لگی۔
نان بائی صدیوں سے یہیں رہ رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے آباؤاجداد داتا ہجویری کے ماننے والے تھے اور ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ نان بائی ہر جمعرات کو اپنے والد کے ساتھ داتا دربار پر حاضر ہوتا تھا۔گیارہویں والی سرکار کی گیارہویں دینے کے لیے داتا صاحب کے پاس جاتا تو ایک کڑھے ہوئے رومال میں خستہ نان لے جانا نہ بھولتا۔تین سال قبل اس کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا تھا۔اب اس کا دھیان یا نانوں کی خستگی کی طرف ہوتا یا اپنی اکلوتی بیٹی کی طرف۔داتا دربار جانا جیسے موقوف ہو گیا تھا۔وہ خستہ نانوں کو دیکھتا داتا دربار کے زائرین کی شکلیں ذہن میں اتارتا یا اپنی اکلوتی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر وہی خستہ نان کھاتا کم اور بیٹی کا زیادہ کھلاتا۔ایک آدھ لقمہ اپنے اندر بھی اتارتا اور تندور پر اینٹوں سے بنی نشست پر بیٹھ جاتا۔ اس نے لڑکے کو دیکھا تو ایک چین کا سانس اس کے اندر پھیلتا چلا گیا۔یہ گری کسی میٹھے بادام کی ہے۔یہ بادام کڑوا ہو ہی نہیں سکتا۔ایسے اور بھی کئی خیال نان بائی کو آئے ہوں گے مگر لڑکے کو اس کی خبر کیسے ہونی تھی۔
اس نے لڑکے کو اپنی اس اینٹوں کی بنی تھڑی پر بٹھایا۔اور اس کے لیے پاس پڑے گھڑے کی بجائے گھر کے اندر نلکے سے تازہ پانی کا ایک گلاس لینے گیا۔اس کی اکلوتی بیٹی نے خود نلکا چلا کر پوچھا
ابا باہر کون آیا ہے؟
کوئی مسافر لڑکا ہے۔مصیبت کا مارا لگتا ہے۔مگر کسی اچھے ماں باپ کی نشانی لگتا ہے۔اس کے چہرے پر ایک چاند بنا ہوا ہے۔لڑکا ہونہار اور بختوں والا لگتا ہے۔نانبائی پانی کا گلاس لے کر مڑا تو اکلوتی بیٹی بھی اس کے ساتھ ہی باہر آئی۔لڑکا اسی اینٹوں والی نشست پر چپ بیٹھا تھا۔ایک دن کی بھوک اسے کہاں لے آئی تھی۔رام پور سے لاہور کتنا دور تھا اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا۔نان بائی نے لڑکے کو اپنے پاس بٹھایا پانی کا گلاس پلایا اور کہا کہ آؤ کھانا کھاؤ۔نان بائی نے ایک پلیٹ میں اچار کی دو ڈلیاں اور کڑھے ہوئے رومال پر تین تازہ نان رکھے۔نان کی خوشبو اور اچار کی کھٹاس لڑکے کی ناک سے ہوتی ہوئی اس کے معدے تک پہنچی اس کے جسم میں طاقت آئی ۔نان بائی نے لڑکے کی آنکھوں کی دیکھا تو ان کی گہری اداسی سے اسے پہلی بار خوف آیا۔خوف کی ایک لہر اس کی پشت کے آخری مہرے تک بجلی کی طرح پھیلی۔یہ اداسی سفر کی ہے یا بھوک کی، اکیلے پن کی ہے یا اجنبیت کی اسے کچھ معلوم نہ ہوا۔
جاری

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply