فرانسیسی فلسفی رینے گینوں نے جوان عمر میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا، واقعہ یہ ہے کہ علم کے میدان میں کلاسیکی جرمن فلاسفرز ایک طرف ہوں اور دوسری طرف رینے گینوں ہوں تو گینوں کا پلڑا بھاری پڑ جائے، اسلام میں وہ تصوف کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور ایک مصری بزرگ کے ہاتھ باقاعدہ بیعت تھے، مسلمان ہونے کے باوجود بھی انہوں نے فرانسیسی اشرافیہ اور میسن کمیونٹی کے ساتھ قریبی بلکہ دوستانہ تعلقات رکھے ، پوچھنے پر بتایا کرتے کہ ایسے لوگوں سے دور رہ کر تو اسلام ان تک نہیں پہنچایا جا سکتا، ضروری ہے کہ ان کے قریب رہتے ہوئے انہیں اسلام سے متاثر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یاد رہے کہ رینے گینوں ہندو ویدوں کے بے حد معترف تھے اور فرانسیسی اشرافیہ کو وہ ہندومت کے علمی چمتکار بڑی دلچسپی سے سناتے، مگر مسلمانوں کے درمیان وہ پکے مومن تھے، عجب تضاد ہے کہ اتنا بڑا ذہن دورخی اختیار کئے ہوئے تھا کہ شبیر و یزید ، دونوں سے یارانے تھے۔
محمد رضا پہلوی ایران کے آخری شاہ تھے، شاہ بنتے وقت اسلام بارے ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں، اب چونکہ وہ اسلامی ملک کے شاہ تھے تو ضروری تھا کہ بنیادی اسلامی تعلیمات پر انہیں عبور حاصل ہو، اس کیلئے انہوں نے سید حسین ناصر نام کے ایک عالم و شیخ کو اپنا مشیر رکھ لیا، سید حسین ناصر غیر معمولی ذہن کے انسان تھے، کئی کتابوں کے مصنف اور حیران کن روحانی تجربات رکھتے تھے، ایرانی انقلاب کے بعد شاہ پہلوی سیاسی پناہ کیلئے دربدر بھٹکتے رہے، بیماری کے دردناک ایام انہوں نے میکسیکو کے ایک درمیانے سے ہسپتال میں گزارے ، مصری حکومت نے انہیں بالآخر پناہ دی، لیکن ان کے برعکس سید حسین ناصر فورآ ہی امریکہ دیس کو سدھار گئے جہاں قلعہ نما خوبصورت محل ان کا منتظر تھا اور حفاظت و خدمت کیلئے امریکی سرکاری اداروں کے اہلکار ہر وقت موجود رہتے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب ایک طرف تو سید حسین ناصر ایران کی اس انقلابی حکومت کیلئے غدار اور بھگوڑے کا درجہ رکھتے تھے لیکن دوسری طرف قُم شریف سے پبلش ہونے والی ہر سنجیدہ مزہبی کتاب کے دیباچے اور مقدمے میں سید حسین ناصر کے دستخط لازمی ہوتے، ایک دفعہ ماسکو کے ایک صحافی نے ایرانی سفیر سے پوچھا کہ یہ سید حسین ناصر کا کیا معاملہ ہے، وہ بیک وقت آپ کیلئے غدار بھی ہیں اور وہی شخص شیخ الشیوخ کا درجہ بھی رکھتے ہیں، منظور از این دوگانگی چیست ؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ دیکھیں مختلف ثقافت و روایات کے ممالک درمیان کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو دونوں کے قریب ہو، تاکہ وقت آنے پر وہ پُل کا کام دے سکے ، شیخ سید حسین ناصر ہی وہی شخص ہیں جو ایسے پُلوں کے معمار ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری روحانی روایات کے امین بھی ہیں ، لاطینی میں اسے Pontifex Maximus کہیں گے ۔
یہی حال ترکی والے فتح اللہ گولن کا ہے، فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سید حسین ناصر زیادہ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں یا فتح اللہ گولن، دونوں ہی مغربی اشرافیہ کی آنکھ کا تارا ہیں، گولن خود کو مذہبی شخصیت کہتے ہیں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں سکول دنیا بھر میں چلا رہے ہیں جہاں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے، اور پھر ہر دہائی میں ایک دفعہ کروٹ بدلتے ہوئے ترکی کی حکومت پہ دھاوا بول دیتے ہیں، وہ خود کو صوفی کہتے ہیں مگر ان کا طرزِ زندگی کم از کم بھی شاہانہ تو ضرور ہے، ترک حکومت پہ گاہے بگاہے حملے شاید وہ قیمت ہے جو انہیں اس شاہانہ زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے چکانی پڑتی ہے ۔
ہمارے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بعینہ اسی فتح اللہ گولن کے راستے پر ہیں، بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں ، سینکڑوں درسگاہیں دنیا میں کھول رکھی ہیں، عمومی تعلیم تصوف اور صوفیاء کے ہوشربا واقعات ہیں ، دوسرے چوتھے سال پاکستانی حکومت پہ لشکر کشی کرتے ہیں اور پھر کینیڈا میں مخملی لبادے اوڑھ کر گجریلا کھاتے ہیں اور سنہری انگیٹھی پہ آگ تاپتے ہیں۔ یہاں بھی گولن کی طرح انہیں اس شاہانہ زندگی کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
رینے گینوں ، سید حسین ناصر ، فتح اللہ گولن اور ڈاکٹر طاہر القادری وہ لوگ ہیں جن کا ایکڈمک قد بلند ہے ، ان کے نیچے ایسے افراد ہیں جو تعلیمی میدان میں کسی بڑے مقام پر نہیں لیکن مزاج بالکل ویسا ہی پایا ہے، ان میں مولانا طارق جمیل صاحب اور مفتی قوی و دیگر کئی لوگ شامل ہیں، شاہانہ طرزِ زندگی اور لوازماتٍ آسائش ان کی کمزوری نہیں تو لازمی ضرورت کا درجہ ضرور رکھتے ہیں، امارت کا چسکا ہو، اقتدار کا لالچ یا پھر نفس کی کمزوری، اس کیلئے ایسے تمام افراد وہ تاویلیں سامنے لائیں گے کہ انسان باقاعدہ ایمان لے آتا ہے کہ حضرت صاحب بالکل درست فرما رہے ہیں، یہاں علمی قد کاٹھ کوئی معنی نہیں رکھتا، یہ ایک ہی قبیلے کے لوگ ہیں ، یہ سب دو کشتیوں کے سوار ہیں جہاں ایک ٹانگ ایک کشتی پر تو دوسری ٹانگ دوسری کشتی پر ہے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے کہ ان لوگوں کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب پانی کے اندر سے مگرمچھ نے ان دو ٹانگوں کے بیچ والے حصے پہ حملہ کردینا ہے، وہی حصہ جہاں محکمۂ زراعت والے اینٹیں لٹکاتے ہیں۔ اب جب اپنی ہر خواہش و کمزوری کیلئے دلیل و خواب کا سہارا لیا جائے گا تو ایسے معاشرے میں رجب بٹ اور مناہل ملک ہی پیدا ہوں گے۔
لیکن سنجیدہ سوال یہ ہے کہ مذہب کے متعلق پورا علم رکھنے کے باوجود بھی ایسے لوگوں کے ان رویوں کو کیا نام دیا جائے، اس کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے کہ علامہ صاحب، مفتی، شیخ اور مولانا صاحب ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ قارون جیسا مزاج وکردار کیوں رکھتے ہیں، یہ لوگ وکٹ کے دونوں طرف کیوں کھیلتے آ رہے ہیں، وہ ہر قسم کے اقتدار کا حصہ بھی ہیں اور روحانیت کا چیمپئن بھی خود کو منوانا چاہتے ہیں ؟
اور یہ معاملہ آج یا فقط ماضی قریب کی بات نہیں ، پوری مذہبی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے ۔
تھوڑا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام مذاہب میں زرتشتی مذہب وہ مذہب ہے جس نے انسانوں کے عقائد ، نفسیات ، سوچ اور رویوں پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، اس میں بھی بالخصوص مترا ازم کا اثر شدید تر ہے ، یہ اور بات کہ مترا کی فکر ہر جگہ اپنے اصل نام سے ظاہر نہ ہو پائی ، زیادہ تر پردے میں رہی مگر اصل فلسفہ اسی کا چلتا رہا اور آج بھی پوری شدومد کے ساتھ چل رہا ہے، اگرچہ یہ قدیم ایرانی فکر ہے اور اس کی کئی جڑیں ہندومت سے مشترکہ بھی ہیں لیکن مغرب کی پوری مذہبی فکر اور مشرق میں بڑی حد تک مذہبی افکار اسی مترا ازم پہ کھڑے ہیں۔
اس فلسفے کے مطابق ایک بڑا خدا ہے جس کا نام زروان ہے، زروان اپنے معانی میں وہی ہے جسے ہم دہر کہتے ہیں، پیدا کرتا ہے مارتا ہے پھر پیدا کرتا ہے، وقت کی حرکت کہہ لیں ، فارسی والا چرخٍ فلک بھی یہی ہے۔
اب اسی زروان کے ماتحت دو وجود ہیں، ایک خیر اور دوسرا شر، قدیم زروان ازم میں ان دونوں کو خدا کا درجہ حاصل تھا یعنی خیر کا خدا اور شر کا خدا، بعد میں زرتشتی ریفارمز کے تحت شر والے وجود سے خدا کا سٹیٹس چھین لیا گیا، خیر والے وجود کو ارموزد اور شر والے کو اھریمان کا نام دیا گیا، یہیں سے دوئی کا تصور سامنے آیا۔
یہ جو خیر والا خدا امروزد ہے یہ روشنی کا خدا ہے، سورج کا خدا ، سونے کو بھی شمس یعنی سورج کہا جاتا ہے، گویا کہ امروزد چمک دمک، لش پش، رعب داب ، آب و تاب، شان و شوکت ، جاہ و جلال، عیش و آسائش کا خدا ہے اور عجب حادثہ ہے کہ روشنی کے حامل اس وجود کیلئے لاطینی اور پھر انگریزی زبانوں میں Lucifer کا لفظ استعمال ہوتا ہے، سادہ معنوں میں مترا ازم کا خدا اور ابراہیمی مذاہب کا ابلیس ایک ہی وجود ہے، اب مترا ازم کی جڑیں پوری کی پوری عیسائیت، ہر قسم کے تصوف اور اسلام سمیت کئی دوسرے مذاہب میں اس قدر گہری ہیں کہ امروزد اور لوسیفر میں یا تو تفریق کرنا مشکل ہو گیا ہے، یا پھر ہم اپنی خواہش کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے لوسیفر ہی کو امروزد منوانے پہ بضد ہیں اور ہمارے ہاں تو صوفی زدہ مذہب کے علاوہ مترا ازم کے بھائی ہندومت کا اثر بھی گہرا ہے، یعنی یک نہ شد دو شد والی بات ہے، ۔ اور حادثہ یہ ہے کہ شعوری سطح پہ قطعاً ضروری نہیں کہ ایسی خواہش یا ایسی نیت فرد کو خود پہ واضح ہو، لیکن لاشعور کے کسی کونے میں ہم ایسی غلط فہمی، ایسی خواہش ضرور پالتے ہیں اور مغالطہ اس قدر گہرا ہے کہ ایک لمحے کو بھی اعتماد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا، یہ اعتماد مگر باطل ہے اور روحانی معاملات میں باطل اعتماد کا نتیجہ بسیار خوری، طمعٍ اقتدار اور جنسی بھوک کی صورت سامنے آتا ہے ، اور پھر اس تضاد کو مٹانے کی کوشش میں من گھڑت تاویلوں کے جو انبار لگائے جاتے ہیں وہ اب باقاعدہ ایک سکول آف ٹھاٹ بن چکا ہے جو ہمارے رویوں اور کردار میں مکمل سرایت کر چکا ہے کہ ہم اسے بطور ثبوت پیش کیا کرتے ہیں۔

مناہل ملک اور رجب بٹ اب اس بات پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ خدا کے پسندیدہ ہیں کیونکہ انہیں بیت اللہ اور روضتہ رسول پہ حاضری نصیب ہو رہی ہے اور ہم فضول لوگ ان کی شہرت سے جلتے ہوئے ان پہ کیچڑ اچھال رہے ہیں، یعنی وہ بلا تردد اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ حاضری ہی ان کے درست ہونے کی دلیل ہے، اس سٹیج پہ آکر کامن سینس اور دینی سمجھ بوجھ کا مشترکہ جنازہ پڑھ لینا چاہئے ، کامل یقین ہے کہ جس شخص نے پہلی دفعہ ، آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں، والا جھانسا دیا وہ یقینا چوری کے پیسوں سے حج یا عمرے پہ گیا ہوگا ، لیکن نعتیہ لقمہ ایسا دیا کہ پیچھے والے سبھی لوگوں کا منہ بند رہے ۔
مضمون میں دیئے گئے ناموں کو ذاتیات میں نہ لیا جائے، ہم سب ایسے ہیں، ہم سارے، خاص و عام، اسی سماج کا حصہ ہیں اور ہم ان تمام اوصاف میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ رکھتے ہیں۔۔۔ اگرچہ تحقیق و بحث کیلئے سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بڑے بڑے علماء اور مذہبی محققین آخر دو کشتیوں کے سوار کیوں ہیں ؟
کیا وہ واقعی حقیقت نہیں جانتے، یا وہ محض اداکار ہیں یا ایسا کچھ خاص ہے جو ہمارے پلے نہیں پڑ رہا ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں