مسلم ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟-ایڈووکیٹ قاسم اقبال جلالی

کچھ تو General اور sweeping statements ہوتی ہیں. جیسا کہ؛
امہ کو “سخت اقدامات” اٹھانے چاہئیں
مسلمان ملکوں کو “منہ توڑ جواب” دینا چاہیے
وغیرہ وغیرہ
یہ sweeping statements بھی ڈھکوسلہ اور دھوکہ ہی ہوتی ہیں۔
بہرحال، امہ کے لیڈران کا حال تو ہمارے سامنے ہے، اِن میں نہ تو کچھ کرنے کی ہمت اور دلیری ہے، اور نہ ہی جذبہ اور نِیت۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں،لیکن نام نہاد حکمرانوں پہ اتمام حجت کیلئے چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں جو اقدامات عملی نوعیت کے ہوں، قابلِ عمل ہوں، اور ان کے فوری یا مستقبل قریب میں اہم اثرات مرتب ہوں؛

1. تمام مسلم اکثریتی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تمام قسم کی براہ راست اور خفیہ تجارت فوراً منسوخ کر دینی چاہیے۔

2. اسرائیل کو تیل، گیس کی ترسیل پہ مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے۔

3. اسرائیل کیلئے نہر سویز سمیت تمام تجارتی راستوں کے استعمال پہ مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے. جو راستے مسلم ممالک کے کنٹرول میں ہیں۔

4. تمام مسلم اکثریتی ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات مکمل ختم کر دینے چاہئیں، اپنے سفراء واپس بلا لینے چاہیئں اور اسرائیلی سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دیکر ملک بدر کر دینا چاہیے۔

5. اسرائیل کو حالیہ جنگ کے دوران اسلحہ اور امداد بھیجنے والے ممالک کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جانا چاہئے. خصوصاً امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ۔

6. اسرائیل کے اردگرد موجود مسلم اکثریتی ممالک اپنے فقط 20/20 ہزار فوجی اسرائیلی سرحد کے قریب deploy کرنے کا اعلان کر دیں اور ساتھ ہی اعلان کِیا جائے کہ اگر غزہ پہ مکمل قبضے کی کوشش کی گئی تو مسلم ممالک کی افواج اسرائیل میں داخل ہو جائیں گی۔

7. مسلم ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کے اسرائیلی طیاروں کی پرواز کیلئے No fly zone قرار دیا جائے. چاہے وہ کمرشل پروازیں ہوں یا فوجی۔

8. تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنے تمام بنک ڈپازٹ امریکی و یورپی بینکوں سے نکال کے مقامی بنکوں میں منتقل کر دیں۔

9. مسلم ممالک ڈالر پہ انحصار فوری ختم کرنے کیلئے اپنی مشترکہ کرنسی، یورپ کے یورو کی طرز پہ، جاری کریں. جسکی بنیاد سونے اور چاندی کے ریٹ پہ ہو. تاکہ یہ دیگر fiat currencies سے مختلف اور بہتر ہو۔

10. نیٹو کی طرز پہ ایک مضبوط فوجی اتحاد کا اعلان کیا جائے جس میں ہر ملک کم از کم 10 ہزار فوجی دینے کا اعلان کرے، اور ایک ملک پہ حملہ تمام ممالک پہ حملہ تصور کیا جائے۔

11. غزہ کیلئے فوری طور پہ 10 ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا جائے. اور غذائی و طبی ضروریات کیلئے مصر کی رفاح کراسنگ کے ذریعے فوری طور پہ مسلم افواج کی زیر نگرانی امداد غزہ پہنچائی جائے. اگر اسرائیل ان امدادی قافلوں پہ حملہ کرے، یا روکے، تو اسے براہ راست مسلم ممالک کے خلاف جنگ تصور کیا جائے اور حقِ دفاع میں پہلے غزہ کو secure کِیا جائے اور بعد ازاں اسرائیل کو سبق سکھایا جائے۔

12. غزہ اور مغربی کنارے میں لڑنے والے تمام گروہوں کو، بلا تفریق، اسلحہ اور گولہ بارود، خفیہ و اعلانیہ، فراہم کِیا جائے، جیسا کہ امریکہ یوکرین میں کر رہا ہے۔

13. اقوامِ متحدہ کو دھمکی دی جائے کہ اگر ایک ہفتے میں جنگ بندی نہ کی گئی تو تمام مسلم ممالک اقوامِ متحدہ کی رکنیت واپس کر دیں گے. یوں 57 ممالک کے نکل جانے سے یو این کی اہمیت کم ہونے، بلکہ وجود ہی خطرے میں پڑتا دیکھ کر یقیناً سیکیورٹی کونسل فوری جنگ بندی کیلئے عملی اقدامات اٹھائے گی۔

یہ وہ اقدامات ہیں جو میں ممکنہ طور پہ سوچ پایا ہوں. مزید اقدامات بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں. اور یہ سب وہ اقدامات جو مسلم اکثریتی ممالک اٹھانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں. اور اگر ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیکر محض یہ اقدامات اٹھانے کا اعلان ہی کر دیا جائے تو مجھے قوی یقین ہے دنیا کے نام نہاد طاقتور ممالک فوری جنگ بندی کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دیں گے اور محض 24 گھنٹوں میں جنگ رُک جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال، بزدل حکمران اشرافیہ، جو مسلم ممالک کے اقتدار پہ براجمان ہے، سے ایسی کوئی توقع نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply