اکلوتا بیٹا/مسلم انصاری

میں اور میری بیوی ہمارے اکلوتے بیٹے سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی کسی بھی متوسط طبقے کے والدین میں پائی جاتی ہے، میں ہمیشہ کوشش کرتا کہ وہ جس چیز کی خواہش رکھے میں اسے کسی نا کسی طور پورا کر سکوں!
اس میں کیا الگ تھا؟
میں نے اپنے باپ کو بھی میرے لئے یہی کرتے دیکھا اور یقینا میرے باپ کا باپ بھی اپنے بیٹے کے لئے یہی کرتا رہا ہوگا، میرا باپ بھی اپنے باپ کی جیب اور محبت دونوں سے واقف ہوگا سو اس نے کبھی جیب سے بڑی خواہش نہیں کی ہوگی، میں نے بھی اپنے باپ سے کبھی ایسی خواہش نہیں چاہی کہ وہ اس کی تکمیل میں ہی پورا ہو جاتا اور عین اسی طرح میرا بیٹا بھی۔
میں اسے بچپن سے دیکھتا رہا تھا کہ اس نے کسی دوکان پر کوئی چیز پسند کی تو وہ اس چیز کو چھوتا، اس کی آنکھوں میں ایک مانوس سی چمک ابھرتی، ایک لمحے کو وہ سر اٹھا کر میری طرف دیکھتا مگر چپ رہتا، میں بھی جان جاتا کہ اسے فلاں چیز بھا گئی ہے سو میں بھی چپ رہتا، پھر کسی دن جب جیب میں خاطر خواہ اور بے سبب ہی کچھ نوٹ اضافی محسوس ہوتے تو میں وہ چیز لے آتا، اکثر جب میں اسے نیا کھلونا دیتا تب وہ اپنے کھلونوں کو ترتیب سے رکھ رہا ہوتا، نیا کھلونا ملنے پر وہ کبھی پرانے کھلونے نہیں پھینکتا بلکہ پرانے کھلونوں کا ایک گول دائرہ بنا کر بیچ میں نیا کھلونا رکھتا اور میری طرف شکریہ کے سے انداز میں دیکھ کر مسکراتا، یہی ایک مسکراہٹ جو مجھے سمجھاتی تھی کہ میرا بیٹا مجھ جتنا ہی سمجھدار اور قناعت پسند ہے

وہ ایک سمجھدار بچہ تھا
کم عمری میں اگر اس کے منہ سے “یہ لینا ہے” نکل بھی جاتا تو میں اس سے کہتا “پھر لیں گے” تو وہ فوراً مان جاتا، مگر جیسے جیسے وہ بڑا ہونے لگا اس نے اتنا جملہ بھی کہنا چھوڑ دیا، عیدیں گزرتیں اور وہ سارا دن گھر کی کھڑکی سے سر ٹکائے باہر کھیلتے، گزرتے اور ہنستے بچے دیکھتا پھر میری یا اپنی ماں کی گود میں آ کر لیٹ جاتا، اور بڑا ہوا تو اس نے کھڑکی سے دیکھنا بھی بند کردیا
مجھے اس سب کا احساس تھا
میں اور میری بیوی ہم ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے اس کی سمجھداری پر کچھ ایسا کہتے جسے لفظوں میں سمجھانا ہمارے بس میں نہیں تھا، کبھی کبھار میرے بیٹے کی اتنی چپی پر میری آنکھ بھر آتی اور میں فوراً گھر سے باہر چلا جاتا!

آدھے کمرے، آدھے صحن اور آدھے کچن کی اس دنیا میں ہم تین جی ایسے رہتے جیسے ہم نے سب کچھ سیکھا سکھلایا ہوا ہے، ہم تینوں ایک دوسرے سے کسی بھی طرح کی فرمائش نہیں کرتے، میری قناعت پسندی میری مجبوری، میری بیوی کی قناعت اس کا زیرک پن اور میرے بیٹے کی قناعت اس کی پیدائشی فطرت میں شامل تھی، میں نے اسے اچھی تعلیم دلوائی، وہ بھی بنا کچھ پوچھے بتلائے بہتر سے بہتر نمبر لاتا رہا، کمرے کے ایک کونے میں کپڑے کی پرانی الماری کا نچلا حصہ ہمارے گھر کی دنیا میں اس کی اپنی اور الگ دنیا تھی
ایک جوڑی جوتا، سیاہ اسکول شوز، پینسلیں، کچھ خالی عطر کی شیشیاں (جو کبھی میری تھیں) اسکول بستہ، کنچوں کا ایک ڈبّا اور بس!
اس کے نئے پرانے کھلونے صحن کے ایک کونے میں گھی کے پرانے کاٹن میں رکھے رہتے، دھیرے دھیرے اس نے وہ کاٹن بھی کھولنا چھوڑ دیا

میری یہی دنیا تھی
میں اس دنیا سے کبھی کہیں باہر جاتا تو اسے ساتھ لے جاتا، اسے کسی پارک میں بٹھا کر دوست بنانے کا کہتا، اسے دنیا کے رنگوں کے بارے میں اسی کی عمر کے مطابق باتیں سمجھاتا، کبھی وہ سمجھ جاتا اور کبھی میرے چہرے کی طرف ایک اجنبی کی مانند دیکھتا رہتا، کبھی کبھی اس کا چہرہ دیکھ کر مجھے لگتا کہ یہ میں ہی ہوں یا پھر کبھی لگتا کہ میں اس کم عمر لڑکے سے بالکل انجان ہوں، پھر بھی مجھے کوئی تجسس نہیں رہا کہ اس کے اندر کیا سوچ چلتی ہے؟ اسے یہ خالی پن معیوب کیوں نہیں لگتا یا وہ میری ایسی باتوں پر عمل کرنے میں دیری کیوں برتتا ہے؟
جیسے میں بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اپنے باپ کا بیٹا نہیں دوست بن گیا تھا عین اسی طرح وہ بھی میرا دوست بنتا گیا، دوستوں کی کمی مجھے بھی رہی تھی مگر اسی عمر کو پہنچ کر مجھے میرا پہلا دوست اپنا باپ ہی ملا تھا سو جب میرا بیٹا بھی اِس عمر کو پہنچا میں اور وہ دوست بن گئے!

ہم گھنٹوں ساتھ رہتے، بیشتر اوقات ہم ایک مانوس خاموشی سے گھرے رہتے مگر جب ہم بات کرتے تب ہر طرح کی بات کرتے، اس کی ماں مجھے اس سے بات کرتا دیکھ مسکراتی، شاید وہ اسی میں خوش تھی، میں بھی خوش تھا پھر ایک دن وہ عورت بیمار پڑ گئی، ایسے ہی کسی بے مطلب کے مچھر کے کاٹنے سے اور جب تک میں اس کے لئے گھر بار بیچ کر حیثیت سے کچھ زیادہ کر پاتا وہ مر گئی
بس یوں ہی، خاموشی سے، بنا کچھ کہے سنے، میرے بیٹے اور مجھے کوئی انوکھی یا بالکل نئی بات سمجھائے سنائے بغیر، ایسے جیسے اس کا ایک دن دل کیا ہو کہ چلو میں مر جاتی ہوں اور وہ مر گئی!

یکدم گھر بہت بڑا بڑا لگنے لگا
اتنا بڑا کہ ہم اسے کیسے بھریں ہم دونوں کو سمجھ نہیں آیا، اپنی بیوی کی موت پر نہ میں رویا نہ ہی میرا بیٹا اپنی ماں کی موت پر، کس قدر عجیب تھا
اگر وہ صحن میں بیٹھا ہوا دکھتا تو میں کمرے میں چھپ جاتا، وہ کمرے میں ہوتا تو میں صحن سے آگے جاتا ہی نہیں، ہم دونوں ایک دوسرے سے چھپ رہے تھے، مجھے اپنے بیٹے کو اتنا سمجھدار نہیں بنانا تھا مگر اب تک تو وہ بن چکا تھا، میں کھانا بناتا وہ کھا لیتا، وہ کچھ بناتا تو میں کھا لیتا، کتنا عرصہ ہم نے آپس میں بات ہی نہ کی، کیا بات کرتے؟ ان دنوں مجھے میرے باپ کی بہت یاد آئی، مجھے یاد آیا کہ جب میرا باپ میری ماں کے مرنے کے بعد راتوں کو سو نہیں پاتا تھا تو وہ اٹھ کر صحن میں آکر بیٹھ جاتا اور میں اس کے پاس بیٹھ جاتا

ایک دن میں نے بھی ایسا ہی کیا
میں جب کروٹیں بدلتے بدلتے تھک گیا تو صحن میں آکر بیٹھ گیا، میرے بیٹے نے مجھے دروازے کی اوٹ سے دیکھا پھر وہ بھی میرے پاس آکر بیٹھ گیا، چپی پہلے کی مانند ہی تھی اور مجھے یاد آیا کہ میرا باپ اس خاموشی کو ختم کرنے کے لئے بہت ہی بے وجہ کی باتیں بنایا کرتا تھا تاکہ ہم دونوں باتیں کریں سو میں نے بھی ایسا ہی کیا، میں بے سبب یہاں وہاں کی گھڑنے لگا، وہ بھی مکمل اور تواتر کے ساتھ جڑ گیا اور بات سے بات بناتا رہا، کئی کئی گھنٹے ہم باتیں کرتے، ایسی باتیں کہ جب ہم صحن سے اٹھتے تو وہ باتیں وہیں رہ جاتیں، ہمارے ساتھ چپکی نہ رہتیں!

دن گزرتے گئے اور میرا بیٹا سوکھنے لگ گیا
وہ کمزور ہوتا گیا، اتنا کہ اس کی پسلیاں باہر کو نکل آئیں، میں جو اپنی بیوی کے دکھ پر نہیں رویا تھا اس کی ایسی حالت پر رو دیا، میں نے کھانے پینے کی اشیاء بڑھا دیں مگر وہ کچھ کھاتا ہی نہیں تھا، میں اسے ٹہلانے لے جاتا تو وہ ٹہلتا رہتا، میں چلتے چلتے رک جاتا تو وہ آگے نکل جاتا اور جاتا رہتا پھر اچانک اسے خیال آتا کہ وہ تنہا ہے، وہ مڑ کر مجھے دیکھتا اور واپس پلٹ آتا
ایک دن میرا دل کیا کہ میں اس سے کہوں “میں دوسری شادی کرلیتا ہوں؟ تاکہ ہماری اس تنہائی کو کوئی تیسرا جی بانٹ لے!” مگر اب میری حالت ایسی تھی جیسی بچپن میں اس کی تھی، یہ میری خواہش تھی اور یہ ہمارے جینز میں تھا کہ ہم اپنی خواہشیں منہ سے کہ ہی نہیں پاتے تھے، میں اس کے چہرے کی طرف یہ بات ذھن میں رکھے ہوئے دیکھتا تو وہ آگے سے بالکل میری طرح مسکرا دیتا!

ایک دن میں سویا ہوا تھا، وہ میرے پاس آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا :
“ابا میں نے آپ کی ہر بات پر عمل کیا تھا، میں نے کوئی دوست نہیں بنایا بلکہ ایک محبت کرلی، اسی گلی کے کونے میں، اس کا نام فلاں ہے، میں بچپن سے اسے دیکھ رہا ہوں، میں نے پچھلی سردیوں میں اس سے محبت کا اظہار کیا تھا مگر اس کا انکار مجھے کھا رہا ہے، ابا میری محبت پانے میں میری مدد کرو!”
میں اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، یہ سب وہی تھا جو ایک روز میں نے اپنے باپ سے کہا تھا، اور میرے باپ نے میری مدد کی تھی مگر میرا باپ بھی ناکام ہوگیا تھا، میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میں نے اسے گلے سے لگالیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، وہ بھی رونے لگا، وہ کہنے لگا :
“ابّا کیا ہوا؟ میرا دوست بھی میری مدد نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟”
میں روتا اور اس سے بار بار یہی کہتا رہا :
“میرے بیٹے میرے جیسا مت بن، میرے پیارے بیٹے میرے جیسا اور مت بن، جتنا تو میرے جیسا بن گیا ہے کافی ہے، اندر سے مر جانے کے لئے اتنا بہت ہوتا ہے، اب رک جا، پیارے بیٹے اب تھم جا!”

آہ وہ دن! آہ وہ راتیں!!
آخر کو وہ بھی عین میری طرح، عین میرے باپ کی طرح اور عین میرے باپ کی باپ کی طرح یک طرفہ محبت کا جوا ہار گیا، میں نے اسے بہت سمجھایا، میں کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں اسے سمجھاتا سکھاتا رہا کہ :
“جانے والے پلٹ کر کبھی نہیں آتے، شاید میرے بیٹے تیرے لئے بھی یہی بہتر تھا، مگر کیا بہتر اور کیا بدتر خدا بہتر جانتا ہے!”
مگر میری بات پر وہ یک دم سنجیدہ ہوگیا اور مجھ سے کہنے لگا :
“ابّا ۔۔۔۔ آپ کو کبھی محبت نہ ملنے کا دکھ ہوتا ہے؟”
میں نے بے ساختگی سے کہ دیا، بلکہ میرے منہ سے نکل گیا کہ :
“ہاں بیٹے! ہر ایک دن ہر ایک رات، ہر ایک موسم اور ہر ایک اچھے برے لمحے میں، جب جب میں کسی جوڑے کو دیکھتا ہوں، جب مجھے کسی کی محبت کی خبر ملتی ہے، یا بس یونہی بیٹھے بٹھائے، بنا کچھ سوچے بھی، مجھے اس کی کمی کَھلتی ہے، میں آج بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں، مجھے دکھ ہے، میرے پیارے بیٹے مجھے میری محبت کے نہ ملنے کا دکھ ہے، بیٹے مجھے شدید دکھ ہے، یہی دکھ میں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں بھی ساری عمر دیکھا تھا، تب بھی جب میری ماں زندہ تھی اور تب بھی جب میری ماں نہیں رہی تھی، میرے باپ نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے باپ کی آنکھوں میں بھی یہ دکھ ساری عمر دیکھا تھا، میرے بیٹے تم بھی میری آنکھوں، میری رگوں اور میرے جسم کے ہر ہر حصے میں یہ دکھ دیکھ سکتے ہو!”
یہ سب بتاتے ہوئے میرا گلا رندھ گیا اور میں رونے لگا

میری بات کے اختتام میں وہ بوجھل دل کے ساتھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا :
“ابا ۔۔۔۔ میں یہ ریت توڑنا چاہتا ہوں، میں ساری عمر آپ کی طرح، آپ کے ابّا اور ان کے ابّا کی طرح نہیں گزارنا چاہتا، میں تمام عمر اس دکھ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، میں بالکل آپ جیسا بنا، ہر چیز اور ہر فعل میں مگر میں اس معاملے میں خاندانی رسم سے سبکدوش ہوتا ہوں! میں یہ چبھن تمام زندگی سہن نہیں کر پاؤنگا!”

Advertisements
julia rana solicitors

میں اسے دیکھتا رہ گیا، میرا جسم بے سدھ تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ جب ہم اس کی محبت کو پانے کا ہر گُر اپنا کر بھی ناکام ہو چکے ہیں تب اُس کی اِس بات کا کیا مطلب ہے؟ مجھے ایک انجانا خوف محسوس ہوا، میں نے اسے تو کچھ نہ کہا مگر میں نے ہر تیز دھار آلہ چھپا دیا، میں رات بھر جاگتا رہا، اس ڈر سے کہ کہیں رات کے کسی پہر وہ اٹھے اور جھول جائے، میرا دل کپکپاتا رہا، میں نے اسے اپنے پاس لٹایا اور پہلے اس کا سر دبایا پھر میں نے اس رات اپنے بیٹے کے پیر اور ٹانگیں دبائیں، پوری رات میں اس کے سرہانے بیٹھا رہا اور وہ پرسکون سویا رہا
پھر ۔۔۔۔ پھر وہ صبح نہیں اٹھا
پھر وہ کسی بھی صبح نہیں اٹھا
میرے بیٹے نے ہماری خاندانی رسم توڑ دی!
میرا بیٹا ہو بہو میرے باپ اور اس کے باپ اور پھر میرے جیسا تھا مگر میں زندہ رہا اور میرا سمجھدار بیٹا مر گیا!
آہ میرا بیٹا مر گیا!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply