فلسطین صرف ایک خطہ نہیں، وہ ایک زخم ہے جو صدیوں سے امت مسلمہ کے جسم پر رستا آ رہا ہے۔ وہ ایک فریاد ہے جو ماؤں کی سسکیوں، بچوں کے آنسوؤں اور شہداء کے لہو سے ابھرتی ہے۔ آج بھی مسجد اقصیٰ کے میناروں سے اذان بلند ہوتی ہے، لیکن ان کے سائے میں لاشیں پڑی ہوتی ہیں۔ وہاں ہر تکبیر کے ساتھ کوئی ماں بیٹے کو الوداع کہہ رہی ہوتی ہے، ہر سجدے کے ساتھ کوئی بچہ شہادت کے خواب لے کر سو رہا ہوتا ہے۔
ہم اکثر سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے، دل گرفتہ پیغامات لکھ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم نے فلسطین کے لیے کچھ کیا، مگر سچ یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ نہ ہمارا احتجاج مؤثر ہے، نہ ہماری آواز گونج دار۔ ہم صرف مظلوم کی تصاویر پر افسوس کے ایموجی بھیج کر سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔
مگر سوال یہ ہے: ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
پہلا قدم “شعور” ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، اسکولوں، محفلوں اور میڈیا پر فلسطین کا ذکر زندہ رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کیا ہے، فلسطین کی اہمیت کیا ہے، اور وہاں کا ظلم کیوں صرف ان کا نہیں، ہمارا بھی دکھ ہے۔
دوسرا قدم “آواز” ہے۔ ہماری زبانیں اگر حق کے لیے نہیں اٹھتیں تو وہ خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔ ہمیں احتجاج کرنا ہوگا، چاہے وہ تحریر سے ہو، تقریر سے ہو یا سوشل میڈیا سے۔ لیکن آواز صرف شور نہیں ہوتی، وہ شعور سے جڑی ہوتی ہے، دلیل سے مزین ہوتی ہے، اور نیت سے خالص ہوتی ہے۔
تیسرا قدم “عمل” ہے۔ ہم مالی معاونت کے ذریعے فلسطینی عوام کی مدد کر سکتے ہیں، مستند رفاہی تنظیموں کے ذریعے وہاں خوراک، دوائیں اور بنیادی ضروریات پہنچائی جا سکتی ہیں۔ زکوٰۃ، صدقات، خیرات — سب سے پہلے ان لوگوں کا حق ہے جو اپنے گھروں، بچوں اور زمینوں سے محروم ہو چکے ہیں۔
چوتھا قدم “دعاء” ہے۔ کچھ لوگ اسے کمزور کا ہتھیار سمجھتے ہیں، مگر ایک مؤمن جانتا ہے کہ دعا میں وہ طاقت ہے جو تقدیروں کو بدل سکتی ہے۔ تہجد کی تنہائی میں، سجدے کی گہرائی میں، ہاتھ اٹھا کر صرف ایک جملہ کہہ دینا: “یا اللہ! فلسطین کے مظلوموں کی مدد فرما” — یہ دنیا کی بڑی بڑی افواج سے زیادہ وزنی ہو سکتا ہے۔
پانچواں اور سب سے اہم قدم: “اتحاد” ہے۔ ہم مسلمانوں نے فرقوں، قومیتوں اور مفادات کی دیواروں میں اپنے آپ کو قید کر لیا ہے۔ فلسطین ہمیں پکار رہا ہے کہ “اے امت! میرے لیے نہیں، اپنے لیے جاگ جا، ورنہ کل تیری گلیوں میں بھی یہی ملبہ ہوگا، یہی لاشیں ہوں گی، اور یہی خاموشی چھائی ہوگی۔”
ہمیں جان لینا چاہیے کہ فلسطین کے بچے صرف اپنی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے، وہ ہماری غیرت کے لیے بھی مر رہے ہیں۔ وہ اپنے خون سے ہمیں جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

فلسطین کا مسئلہ صرف جغرافیائی نہیں، یہ روحانی مسئلہ ہے۔ یہ ہماری کمزوریوں کا آئینہ ہے، ہمارے ضمیر کا امتحان ہے۔ اور شاید۔۔آخری موقع بھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں