وہ کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ کپڑوں سے بے نیاز میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔ میں کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھار کن انکھیوں سے اسے دیکھ لیتا اور بے اختیار میرا ہاتھ اس کے جسم پر رینگ جاتا۔ وہ بے سدھ، دنیا ما فیہا سے بے خبر کہیں سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے شاید میرے لمس کی کچھ خبر ہی نہیں تھی۔
میں نے کتاب بند کر کے بیڈ کی سائیڈ تپائی پر رکھ دی۔
کچھ دیر اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھتا رہا، جہاں سنسناہٹ تھی۔ میرا دل پسیج گیا اور میں نے اسے زبردستی اپنی بانہوں میں سمیٹا۔
“بیگم حضور، ایسے کیوں لیٹی ہو ،یوں بے تاثر؟ کیوں احساسِ جرم میں مبتلا کرنے پر تلی ہوئی ہو؟”
اس کے نرم بدن کا لمس پاتے ہی میری مردانگی پر گویا ضرب پڑی اور نرمی کی جگہ ایک وحشی پن مجھے اپنے اندر محسوس ہونے لگا۔ اس نے شاکی نظروں سے مجھے گھورا، جیسے کہہ رہی ہو کہ بس یہی تیری مردانگی ہے؟ میں نے اپنی نظریں چرا لیں۔
میرا بایاں ہاتھ اس کے جسم کی گولائیوں کو ماپنے میں مصروف تھا۔
اچانک اس کے بے جان ہونٹوں سے الفاظ برآمد ہوئے۔
“جان سٹورٹ مِل کو پڑھا ہے؟ وہ اپنی کتاب The Subjection of Women میں لکھتے ہیں کہ عورت کو اپنی زندگی، تعلیم، شادی، اور کام کے سلسلے میں کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ تم کیسے پڑھے لکھے مرد ہو جو بینک میں میری نوکری پر اعتراض کرکے مجھے کام نہیں کرنے دیتے؟”
میں نے گہری نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ سوچا اب کچھ بولوں گا تو بات بڑھ جائے گی، کیونکہ اسے اکثر میرے الفاظ بہت بھاری لگتے تھے، سو سوچنے لگا کہ الفاظ کا انتخاب معزز اور نرم ہو۔
“بیگم، تم دنیا کے فلاسفروں میں کسے سب سے بڑا فلسفی مانتی ہو؟”
میرا یہ سوال اس کے لیے غیر متوقع تھا۔ وہ ہڑبڑا کر کہہ اٹھی۔
“افلاطون اور ارسطو۔”
میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
“آپ کا سب سے بڑا فلاسفر ارسطو کہتا ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم عقل ہے، سو پسند صرف مرد کی ہونی چاہیے۔”
میں نے اس کے تاریک ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا، جہاں صاف صاف لکھا تھا کہ مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے وہ پہلو بدل کر اپنا منہ دوسری طرف کرکے لیٹ گئی۔
میں اس کی کمان جیسی تنی کمر دیکھ کر بیخودی کو آواز دی اور اپنا ہاتھ اس کے بھاری کولہوں پر پھیرنے لگا۔ اس کی منمناتی ہوئی آواز آئی۔
“یہ صرف جسم ہے، اس سے تم کھیل تو سکتے ہو مگر میرا دل نہیں جیت سکتے۔”
اس کا باغیانہ جواب اعلانِ جنگ تھا، سو میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد کس لیے اور اسے اپنے جسم کے قریب کر لیا۔
“جگر، مجھے تیرے دل کا اچار ڈالنا ہے، بس یہی جسم عنایت ہو تو زندگی جنت ہے۔”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں