خود شناسی/تحریر -یاسر جواد

مجھے ڈانس کرنا نہیں آتا، گزشتہ 35 سال میں مجھے خوش ہونے کے طریقے سیکھنے ہی نہیں دیے گئے، میں نے ہر قسم کی موسیقی کو نفس اور تقویٰ کے لیے نقصان دہ جانا۔ مجھے سمجھا دیا گیا کہ ساری دنیا (بالخصوص یہود و ہنود) میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور میرے وجود اور میرے ملک کو مٹانا چاہتے ہیں۔ جنات نکالنے اور جادو ٹونے کے اشتہارات، پاکستان کا مطلب کیا کے نعرے، اچھے اور بُرے بلوما، بے چارے کشمیری، مہاجرستان، سرائیکستان، کلچر ڈے، غدار بلوچ، کالاباغ ڈیم، ایک قوم ایک نصاب، شاذلی انسٹی ٹیوٹ آف ہزلیات، نظریۂ ارتقا کی بکواس، E=mc2 اور مابعدالطبیعیاتی رازوں کا حل، قومی دھارا، ہم ایک ہیں، قومی اخلاقی بنیادیں، مسلم امت، فلسطین اور کشمیر، خونی لبرلز، ……
میں اِن سب باتوں کو کسی نہ کسی صورت میں مانتا ہوں۔ میں نے خود سے بھی کئی جھوٹ وضع کرنا شروع کر دیے۔ میں نے جھوٹ کا مطلب ہی بدل دیا۔ سچائی تو کوئی ہے نہیں۔ اب اے آئی میری پسندیدہ پناہ گاہ ہے۔ جیل میں مطمئن بیٹھا ہوا خان، لہلہاتی فصلوں میں کھڑی پنجاب کی وِینس، ابدی قربانی دے کر مسکراتا ہوا بھٹو، داڑھی منڈا جج، دھوئیں کے غبار میں فوٹوشاپ سے اضافہ کردہ لاشیں۔ اِس کے علاوہ احمد خان کھرل کا شرعی حلیہ، سچے مطلق کلیے چبا کر دیتا ہوا خشخشی داڑھی والا ڈیجیٹل مولوی جو نیل پالش لگی ہونے پر وضو کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے پر دلائل دیتا ہے۔
میں اپنے نظریۂ دنیا (worldview) کا جائزہ لیتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ مجھے ہر سائنسی دریافت اپنے ہاں پہلے سے موجود لگتی ہے اور ہر سائنسی نظریے یا خیال کو مسترد کرتا ہوں۔ میں مابعد الطبیعیات کے سائنسی فضائل ڈھونڈتا ہوں، اور سائنس کو مابعد الطبیعیاتی ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ چاند میری زمین پھول میرا وطن….. میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا، میرا اک اک سپاہی ہے خیبر شکن۔
میری اخلاقیات ازلی ہیں کیونکہ اُن پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ دنیا بھر کی عملی اخلاقیات مجھے پسند نہیں۔ میں خود کو اپنے قبیلے، ذات، ’’نسل‘‘ اور صوبے اور خطے کو مقدس ترین اور تہذیب کا گڑھ سمجھتا ہوں۔ میرے مطالعۂ پاکستان نے بتایا کہ ہے کچھ علاقوں میں سونے کے ڈلے پڑے ہوئے ہیں، تیل کے سمندر ٹھاٹیں مار رہے ہیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی….۔
لیکن ہرمجدون یہیں پر ہو گی، اور میں ٹینکوں کے آگے آگے دھوتی باندھ کر بھاگوں گا۔ ان سب عناصر کو ملا کر دیکھیں تو کیا میں آپ کو بیمار نہیں لگتا؟ کیا میں سکٹزوفرینیا کا شکار نہیں ہوں؟ کیا میں نے حقیقت سے تعلق توڑ نہیں لیا؟
مجھے اپنا علاج کرنا ہے۔ قطعیت سے نکلنا اور دوسروں کی حقیقت کو بھی قبول کرنا ہے۔ یہ ’’دوسرے‘‘ صرف کتاب میں ملیں گے۔ وہاں میری مصیبتیں اور آزمائشیں بھی انوکھی نہیں رہیں گی۔ وہاں میں اپنی بیماری میں بھی تنہا محسوس نہیں کروں گا۔ آج نہیں تو ایک ہزار سال کے پاگل مجھے آئینہ دکھائیں گے۔ اور کیا پتا میں، صرف میں تو اِس سرابِ خیال اور روحانی و خیالی دوستوں کے دھوکوں سے نکل آؤں۔
سب سے پہلے مجھے خوشی منانے کے طریقے تلاش کرنے ہیں۔ یہ ایک چیز میری بہت سی حماقتوں کا اندازہ لگانے میں مدد دے گی۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply