• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میں تعزیت نامہ نہیں ہجونامہ لکھتا ہوں/محمد عامر حسینی

میں تعزیت نامہ نہیں ہجونامہ لکھتا ہوں/محمد عامر حسینی

وہ جو “ترقی پسند” کہلاتا ہو، اپنے آپ کو برصغیر ہند کی نوآبادیاتیاورمابعد نوآبادیاتی سامراج دشمن ، ریاستی جبر دشمن، ظالم حاکم طبقات کے خلاف سماجی انصاف اور مساوات کے لیے چلنے والی تحریک کے عظیم مجاہد انقلابی ناموں کی فہرست میں خود کو درج کرانا چاہتا ہو لیکن ساری عمر وہ اپنی سیاسی جماعت کی سرمایہ دار اشراف قیادت کی “مینجری” کرتا رہا ہو اور اس نے اپنی جماعت کے اندر سرمایہ داری کے نیو لبرل رجحانات کو طاقتور ہوتے دیکھ کر بھی اپنی جماعت کے حامی محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو انقلابی نظریات کے دفاع کے لیے منظم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور نہ ہی جماعت میں دائیں بازو کی اجارہ داری کے خلاف لیفٹ اپوزیشن ونگ کی تعمیر کی ہو اور وہ اپنی جماعت کے اندر سرمایہ دار ، جاگیرداراور موقعہ پرست درمیہنے طبقے کے مینجروں کے ساتھ مفاہمت میں کھڑا رہا ہواور انہیں اپنی تحریر اور تقریر سے للکارا نہ ہو ایسا ” سیاسی دانشور” زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہی تھا ۔ اب جب وہ مرگیا ہے تو تب بھی اس کی موت پر پیٹی بورژوازی دانشور قلم فروش قبیلہ اسے زبردستی بغاوت، مزاحمت اور انقلاب کے علمبردار قبیلے سے جوڑ رہا ہے وہ اسے انقلابی قبیلے کی صف میں کھڑا کرنے کی سعی ناکام کر رہا ہے۔ صبح سے اس دانشورانہ منافقت سے بھرے تعزیتی پیغامات دیکھ کر میرا دماغ پھٹا جاتاہے۔ مجھے نومبر 2023ء کی ایک شام رہ رہ کر یاد آتی ہے جب میں نے اس عمر رسیدہ بوڑھے جھوٹے انقلابی دانشور سے کہا تھا کہ اس کا دماغ اپنی جماعت کے اندر “سوشلزم ہماری معشیت ہے” کے نعرے کی لاش سے اٹھتی ہوئی سڑاند سے پھٹ کیوں نہیں جاتا جب اس کی جماعت کی قیادت اس ملک ککی حکمران اشرافیہ کے مفادات کو بچانے کے لیے ایک کھلی ننگی بدمعاش سرمایہ دار جماعت کے ساتھ موقعہ پرست سمجھوتے کو “میثاق معشیت” کا نام دیتی ہے جو عالمی سامراجی معشیتی اداروں کی غلامی کا سرعام اعلان ہے جس کی مذمت میں اس جماعت کی تاسیسی دستاویز بھری پڑی ہے۔ اسے اپنی جماعت میں بلعم باعور، قارون ، فرعون ، نمرود کے ماسک جڑھائے شرجیل میمن ، سعید غنی ، ڈاکثر عاصم نظر نہیںآتے جو روز غریب ، کسان، مزدور کے منہ پر دلالی ،کمیشن، ککس بیک اور کرپشن کے جوتے برساتے ہیں؟ اسے بلوچستان میں کرائے کے قاتلوں کو تنگا جھنڈا تھما کر “جمہوریت ہماری منزل ہے” کے نعرے کو موقعہ پرستی کے بیچلے سے عوامی سیاست کو کھود کر دفن کردینے کا عمل نظر کیوں نہیں آتا؟ وہ کیوں اس پر آواز نہیں اٹھاتا ؟ اور جب پریس کانفرنس کرنا ہوتی ہے تو اپنی جماعت کی دلال سرمایہ دار قیادت کے کالے کرتوں کو “جمہوریت پسندی” دکھاکر فریب کن اصطلاحوں میں سجاکر سرمایہ داروں کی جمہوریت کا منجن بیچنے لگتا ہے؟ کیا وہ ہماری طرح بھوک، ننگ ، افلاس، بے روزگاری کے عذاب بھگت رہا ہے؟ کہ ہم کہیں اس کی موقعہ پرستانہ چپ کو جواز فراہم کرسکیں ؟ وہ کس بات پر فخر کرتا ہے؟ اسے اپنی دانش ، ذہانت ، اور ماضی کے دو آمروں کے خلاف جدوجہد سے بننے والے سرمائے کو عوام میں بیداری پھیلانے کے لیے خرچ کرنا تھا اور وہ اپنی جماعت کےنظریات کو دفن کرنے والے دلال رہنماؤں کی امیج بلڈنگ میں اسے خرچ کرتا رہا، کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی ؟ اپنی ماضی کی نیک نامی کو بازار میں فروخت کرنے کی؟ میں گستاخ کہلایا، دریدہ دہن کہلایا ، پاگل ، سنکی ، مجذوب ٹھہرایا گیا ۔ اس کے چہرے پر مسکرہٹ کی جکہ خشونت نے لے لی ، غّے سے اس کا بدن کانپنے لگا ، اس نے مجھے بس اتنا کہا،”دفعہ ہوجاؤ” میں نے جاتے جاتے کہا کہ تمہارے اندر ضیاع الحق کی جو بدروح چھپ کر بیٹھی ہوئی تھی وہ باہر آکئی ہے۔ تم وہی ہو نا جس نے 1986ء میں پجارو گروپ کے ساتھ ہاتھ ملایا ، ڈاکٹر امیر حیدر کاظمی سے غداری کی ، اور تم ایک تو نہیں تھے کراچی کے بہت سے اربن مڈل کلاس کے ننگ پیریے تھے جو ڈاکٹر امیر حیدر کاظمی کو چھوڑ گئے تھے اور جاکر پارٹی کے اندر گھس پیٹھ کرنے والے پجارو گروپ کے دام ن میں پناہ ڈھونڈ کر بیٹھ کئے تھے تم نے ان کی مینجری اور ترجمانی سنبھال لی تھی ۔ آج ان میں بھی یہ سچ بولنے کی جرآت نہیں ہے جو اپنے سچ بولنے کے ہاتھوں نواز شریف اور فوجی جنتا سے کہیں زیادہ نوے کی رہائی سے لیکر آج تک اس پارٹی کے “بگ باس” اور اس کے چیلوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ اسے وضع داری ، خاندانی شرافت و نجابت کا پڑھایا سبق اور ترتیب کہتے ہیں حالانکہ یہ پیٹی بورژوازی گٹر دانش سے نکلی مصلحت کی وہ کالک ہے جسے انھوں نے “لذت بے گناہ” کی طرح اپنے چہرے پر مل لیا ہے۔ مجھ سے یہ گھٹن برداشت نہیں ہوتی ۔ میں کیوں کہوں کہ “ایک چراغ اور بجھا ،اور بڑھی تاریکی” ۔۔۔۔ وہ جو کب کا اسیر ظلمات ہوا تھا جو سانس لیتے ہوئے بھی زندہ نہیں تھا وہ منافقت کے وینٹی لیٹر پر لیٹا ہوا مصنوعی زندگی جی رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ نرا موقعہ پرست ،نرا مینجر ، درمیانے طبقے کے ڈھلمل کردار کی حقیقی عکاسی جسے استحصال کا شکار ہونے والوں اور ظلم و جبر کی بھٹی میں جلنے والوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ میں اسے “سرخ سلام ” پیش کیوں کروں ؟ اسے کیوں کہوں “وہ امر رہے”۔۔۔۔ وہاپنے پیٹی بورژوازی طبقے کا غدار تو نہیں تھا؟ نہ ہی وہ آکر افتادگان خاک کے ساتھ بیٹھ گیا تھا؟ اس نے ضیاع الحق کے بھوت سے مباشرت کی اور اس سے اس نے فکر و عقل میں سفسطہ کے کئی ناجائز سنپولیوں کو جنم دیا تھا ۔مجھے اس پارٹی کے اندر گھس پیٹھ کرنے والے حاکم طبقات اور ضیاء الحق کی بدروحوں نے “ادھ مرا” نہیں کیا؟ مجھے اس پارٹی کے اندر کسی خان، سردار، وڈیرے، جاگیردار، چودھری ، سرمایہ کار، شوگر ملوں کے مالکان، سیمینٹ اور ولاد کے کارخانہ داروں ، مالیاتی سرمائے کے گاڈ فادروں نے “بے زبان” نہیں کیا بلکہ اس جیسے ” گٹر دانشوروں” نے بے زبان کیا جو “سفید پوشی ” اور “عوامی ہونے” کا سانگ بھرے ایسے گورکن ثابت ہوئے جنھوں نے میرے نظریات اور ان کی طاقت کو “بے ضمیری” کی قـریں کھود کر دفن کردیا اور اتنے بے شرم تھے کہ جھنڈا “عوام” کا اٹھائے رہے۔۔۔۔۔ سرمایہ داروں کی اجارہ دار حکومتوں “عوامی حکومت ” کہتے رہے کیونکہ ان کا روزگار سلامت تھا، سٹیٹس بھی اچھا تھا اور زندگی بھی سکون سے کٹ رہی تھی ، ماضی کا باغی،مزاحمت کار، انقلابی ان کے اندر کب کا مرچکا تھا ۔ مجھے ان کے سانس بند ہوجانے پر بھلا کیوں دکھ ہوگا؟

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply