کھڈے لائن افسر کی نہ افسری افسری ہوتی ہے نہ شاعری شاعری تو کیا سارا طلسم عہدے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ سید محمد افسر ساجد نے انتہائی یقین کے ساتھ کر دیا کہ
؏ دوستوں کے حلقے میں ہم وہ خوش مقدر ہیں
شاعروں میں شاعر ہیں افسروں میں افسر ہیں
یوں مرتضیٰ برلاس کے شعر کو بہتر بھی کر دیا اور حقیقت ِحال بھی بیان کر دی۔مرتضیٰ برلاس کے بارے میں، ظفر اقبال نے ان دور ِکمشنری میں کہا تھا کہ آپ کھڈے لائن لگیں تو ایک دن میں پتہ چل جائے کا کہ آپ شاعر ہیں یا افسر۔
بہت کم افسر ہیں جو سید افسر ساجد کا کہا دہرا سکیں۔
جیسے دریا کنارے بہت ساری سر سبز بستیاں دریا برد ہو جاتی ہیں ویسے ہی بہت سارے لوگ عہدوں کے سمندر میں ہمیشہ کے لیے غرق ہو جاتے ہیں۔اب حمید کمالی کی مثال دیں تو سب کہیں گے کہ کون حمید کمالی۔وہی کمالی جس نے مقابلے کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی مگر سرکار کی طرف جانے کی بجائے فلسفے کا میدان چنا۔ اور” اقبال اور اساسی اسلامی وجدان ” سی ضخیم کتاب اہل ِعلم کے لیے چھوڑ گئے۔بینک کے کتنے صدور ہوا ہو گئے مگر مشتاق احمد یوسفی اور افتخار جالب کے علاوہ کوئی کسی کو نہیں جانتا۔
” افسر شاعروں “میں مصطفٰی زیدی نے پہلی بار اپنے چوگرد پھیلے خود ساختہ طلسم کو توڑا اور اس سے نکل کر ہجوم میں گم آدمی سے رشتہ جوڑا۔وہی تھا جس نے شعر کے ذریعے سے نام کمایا اور کہا
دریچوں کو تو دیکھو چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
شہزاد احمد جب مجلس ِترقی ادب کے ناظم تھے۔میٹنگ کے لیے لاٹ صاحب کے دفتر کے پہلو میں سیکرٹری اطلاعات کے پاس پہنچے۔مدارالمہام صاحب میٹنگ سے پہلے ہی اس بڑے شاعر اور بڑے انسان سے گویا ہوئے وہاں آپ کرتے ہی کیا ہیں۔ترجمہ ہی کرتے ہیں۔سنجیدہ اور صاحب ِعلم و اطوار شہزاد احمد بولے ترجمہ ہی تو دنیا کے ارتقا کا باعث بنا ہے۔اسی ترجمے سے تہذیبوں نے جنم لیا ہے ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک فکری ایکسچینج ہوا ہے ۔ آپ کا قصور نہیں جب آپ سے علمی گفتگو ہی نہیں ہونی تو ترجمے کی کیا اہمیت ہونی ہے۔
اس آدمی کا مطلب بقول شہزاد احمد یہ تھا ” مجلس کی جگہ سے نکلیں اور کسی اور جگہ پر جا کر ترجمے سے قوم کا مستقبل روشن کریں” یہ سارا پلاٹ کسی اور کو الاٹ کرنا ہے۔
بس اس قدر اس سیکرٹری کی وسعت ِنگاہ اور ویژن تھا۔
اسی جگہ اوریا مقبول جان بیٹھے تھے کسی دوست کے ساتھ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔کھانے کی عادات اور انواع و اقسام کے کھانوں اور لذائذ ذکر ہوا تو ہم بھی بحث میں شامل ہوئے اور مولانا کا شعر پڑھا
آں زلیخا از سپنداں تا بہ عود
نام جملہ چیز یوسف کردہ بود
اپنی بائیں جانب پڑے ریک سے اپنی ضخیم ڈائری اٹھائی اور پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اقوال اور اشعار سے بھری پری ڈائری میں ایک جگہ پر یہ شعر لکھ لیا۔
سید افسر ساجد ہمارے ضلع میں ڈپٹی کمشنر لگے تو شہر ہی علمی اور ادبی سا ہو گیا۔وہ سیاسی زعما جو تھانوں اور کچہریوں میں وقت گزارتے تھے مشاعروں کے سامعین کی صفوں میں نظر آنے لگے۔سید صاحب اب بھی اور اس وقت ادب کی مین سٹریم سے جڑے ہوئے تھے۔ان کی نظم جزیرہ دیکھیے
آج اس کی آنکھوں کی روشنی سمندر ہے
اور اس سمندر میں/ میں ہوں اک جزیرہ سا
/سوچتا ہوں رہ رہ کر /روشنی کے لمحے کو کب ثبات ہوتا ہے/کیا کوئی جزیرہ بھی کائنات ہوتا ہے
ممتاز حسن جیسے بیوروکریٹ شیخ نذیر کا غیر مطبوعہ کلام دیکھ کر رو پڑے تھے اگر ممتاز حسن ان کے مسودوں کو نہ سنبھالتے اور حرف بشاش نہ شائع کراتے تو ان کا کلام منظر ِعام پر آنا ہی نہیں تھا۔
توقیر احمد فائق بھی ان چند خلاق دماغوں میں سے ہیں جنہوں نے اہم ذمہ داریوں سنبھالتے ہوئے شعر و سخن کی شمع کو بجھنے نہیں دیا۔شعر کہنے کا ملکہ جو انہیں حاصل ہے وہ گران قدر تو ہے نایاب بھی بہت ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہمزاد انہی دنوں پر منصہِ شہود پر آیا ہے۔ اس میں شامل غزلیں اور نظمیں اردو ادب کی روایت اور جدید خیالات کا حسین مرقع ہے۔ اس سے چند اشعار
جیتے ہوئے سر طشت میں لے کر نہیں پہنچا
واپس ابھی میدان سے لشکر نہیں پہنچا
وہ جو خورشید بکف تھے ید ِبیضا والے
جا بسے کون سی اقلیم میں مولا والے
آسماں کی وسعتوں میں بے نشاں ہونے کو ہے
یہ پرندہ جو فضا میں پر فشاں ہونے کو ہے
گو رزق کے دروازے وہاں بند نہیں تھے
لوگوں کا عجب حال کہ خورسند نہیں تھے
ساربانوں نے علی الصبح سمیٹا سامان
رخ کیا قافلے نے کوہ ِگراں کی جانب
اترے جو پانیوں میں پرندے شمال کے
بکھرے فضا میں عکس کسی خوش جمال کے
بارش برس کے تھم گئی سردی تھی، شام تھی
کھلنے لگے دریچے گئے ماہ و سال کے
چلّہ چڑھا ہوا تھا کچھ ایسا کمان پر
پیوست تیر ہو گیا سیدھا نشان پر
رخ ِسحر پر پڑے ہوئے وہ دبیز پردے سرک رہے ہیں
ہوئی نہیں صبح بھی ابھی تک مگر افق سے چمک رہے ہیں
اپنے پری جمال کو کس کی نظر لگی
اس شہر ِ بے مثال کو کس کی نظر لگی
دروازہ ِجاں وا ہے مرے بھولے مسافر
کوئی ابھی اس خیمے کے اندر نہیں پہنچا
نوشتہ بر سر ِ دیوار پڑھ لیتے تو اچھا تھا
وہ آنکھوں پر گرا پردہ اٹھا دیتے تو اچھا تھا
نوکری اور بقول آفتاب احمد شاہ ” سرکار کی نوکری”
ایک اعلٰی دماغ کو دیمک کی طرح کھا جاتی
ہے۔ توقیر احمد فائق نے” ہمزاد ” کے ذریعے ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ کا فرض کفایہ ادا کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔شاعری کی یہ کتاب سول سروس کے لوگوں کو زبردستی پڑھانی جانی چاہیے شاید ان میں کسی لیول پر احساس ِ زیاں جنم لے سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں