سندھ ہائیکورٹ نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں ارسا کی تشکیل اور نہروں کی تعمیرات کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران درخواست گزارکسان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ارسا میں سندھ سے رکن کی تعیناتی نہ ہونے کے باعث اس کی تشکیل اور تمام فیصلے غیر قانونی ہیں، اس پر عدالت نے وفاقی حکومت سے 18 اپریل تک جواب طلب کرلیا
درخواست گزار کے وکیل اور پی پی رہنما ضمیر گھمرو نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد اب کینالزکی تعمیرنہیں ہوسکے گی۔
یاد رہے کہ ارسا نے 25 جنوری کو چولستان اور تھل کینال کی تعمیر کے لیے پانی کی فراہمی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ عدالت نے ارسا میں سندھ کے رکن کی تعیناتی نہ ہونے پر سیکرٹری وزارت پانی وآبی ذخائر اور وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے دونوں افسران کو 7 مئی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
گرین پاکستان انیشیٹو’س کے منصوبے کے نام سے 6 نہریں دریا ئے سندھ سے نکال کر چولستان کی 66 لاکھ ایکڑ کو سراب کرنے کا منصوبہ
جس کی سندھ میں اور غیر جانبدار ماہرین مخالفت کر رہے ہیں
-یہ کارپوریٹ فارمنگ ہو گی جس میں غیر ملکی انوسٹیمنٹ کرے گے اور وفاقی حکومت کا کہنا ہے اس کی منظوری ارسا نے دی اور ارسا نی 1991 کے پانی کے معاہدہ کے مطابق اس کی منظوری دی ہے
یہان پر دو سوال آتے عام آدمی کو آرسا کا 1991 کا پانی کا معائدہ اور
گرین پاکستان انیشیٹو’س کے متعلق عام آدمی کونا مکمل تفصیلات حاصل ہے
اس کے لیے سب سے پہلی دیکھتے ہیں 1991 کا معاہدہ کیا ہے اس سے پہلے کیا حالات تھے اورُمعاہدہ کن حالات میں ہوا اور 1991 سےُپہلے پانی کی تقسیم کیسے ہوتی تھی اور آخر میں 6 نہروں کا کیا معاملہ ہے ان پر اعداد و شمار کے ساتھ تفصیلی جائزہ لیتے ہیں-
1920سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک مرحلے پر سندھ کے ساتھ سرائیکی بیلٹ کی ریاست بہاولپور نے بھی خاص طور پر Non-riparianعلاقوں کو دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ 1920سے اس علاقے میں پانی کی تقسیم کی تاریخ مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تشکیل کی تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد 50کی دہائی میں پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کے درمیان پنجاب کے دریائوں کی تقسیم والے معاہدے پر بھی سندھ کو شدید اختلافات رہے ہیں۔ بعد میں 60کی دہائی میں عالمی بینک کے سہارے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے طاس سندھ معاہدے پر بھی سندھ کو اعتراضات رہے ہیں، خاص طور پر نیویارک میں پاکستان اور ہندوستان کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک دن پاکستانی وفد کے اپنے اجلاس میں سندھ کے نمائندے کے ساتھ جو حشر کیا گیا وہ بھی کم افسوس ناک نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ سب حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں کیونکہ اب تو دریائے سندھ پر ڈیم بنانے کی مخالفت کرنے پر سندھ کے عوام کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے کچھ نکات پر بھی سندھ کو اعتراضات رہے ہیں-
1960 کی دہائی میں سندھ طاس منصوبے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت پاکستان نے بڑے جتنوں سے پانی کی کمی کا حل تلاش کیا۔اس معاہدے کے تحت سندھ طاس منصوبے پر دستخط ہوئے جس کے تحت مشرقی دریا یعنی راوی، ستلج اور بیاس انڈیا کو دے دیے گئے، جب کہ مغربی دریا جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔
انڈیا نے ان تینوں دریاؤں کے ہیڈورکس بند کر دیے اور یہ دریا خشک ہو گئے۔ ضلع قصور کے ایگزیکٹیو انجینیئر نہر جاوید رسول نے بتایا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم نے ایک لنک کینال سسٹم وضع کیا جس کے تحت آٹھ نہریں کھودی گئی اور ان نہروں کے ذریعے مغربی دریاؤں کا پانی لے کر انہیں مشرقی دریاؤں تک پہنچایا گیا۔
سندھ کا پانی لنک کینال کے ذریعے ستلج تک پہنچایا، یعنی پہلے دریا کا پانی پانچویں دریا تک پہنچایا۔ اور اس طرح جنوبی پنجاب کو بنجر ہونے سے بچا لیا۔‘1948 میں ہندوستان نے پاکستان سے کہا کہ اس کے مغربی دریاؤں کا پانی سمندر میں گر جاتا ہے اور اس نے مشرقی دریاؤں پر پانی روکنا شروع کیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ مغربی دریاؤں سے مشرقی دریاؤں میں پانی ڈالے۔
اس مقصد کے لیے لنک کینال کا تصور سامنے آیا اور چشمہ جہلم لنک کینال اسی تصور کا حصہ ہے کہ جب سندھ سے جہلم میں پانی ڈالنے کے لیے اس کی کھدائی کی گئی۔
اس کا مقصد تو یہ تھا کہ جب سیلابی سیزن میں پانی زیادہ ہو تو اسے پانی کو سندھ سے جہلم منتقل کیا جائے تاہم اس کے بعد اسے عام دنوں میں کھولا جانے لگا جس کی وجہ سے سندھ کے اعتراض سامنے آئے۔
پھر گریٹر تھل کینال نکالی گئی جو غیر آباد علاقے کو آباد کرنے کے لیے نکالی گئی جس پر اعتراض آیا کہ پہلے سے آباد سندھ میں اس کی وجہ سے پانی کی کمی ہوئی۔ پاکستان میں آبپاشی کے نظام میں 1947 میں ملک کے قیام کے بعد سے اہم پیشرفت ہوئی ہے، جس کی شکل بڑی حد تک 1960 کے سندھ آبی معاہدے سے ہوئی ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آبی وسائل مختص کیے گئے تھے۔ یہ نظام بنیادی طور پر سطح اور زمینی پانی دونوں پر انحصار کرتا ہے تاکہ 14.6 ملین ہیکٹر سے زیادہ سیراب شدہ اراضی کو سہارا دیا جا سکے، جس میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ ہے۔ پانی کے انتظام میں بہتری اور آبی ذخائر اور نمکیات کے مسائل میں کمی کے باوجود، چیلنجز بدستور موجود ہیں، بشمول سمندر کو پانی کا اہم نقصان اور بحالی کے جاری منصوبوں کی ضرورت

اسی عرصے کے دوران، سکھر بیراج اور اس کی 7 نہروں کا نظام زیریں سندھ میں 2.95 ملین ہیکٹر اراضی کو مکمل کیا گیا۔
اس وقت انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم کے کینال ہیڈز پر سطح کے پانی کا کل سالانہ ڈائیورشن تقریباً 105 MAF ہے۔
پنجاب میں عوامی آبپاشی کا بنیادی ڈھانچہ 34,500 کلومیٹر کی مجموعی لمبائی میں 13 بیراجوں، بڑے دریاؤں کے پار 2 سائفنز، 12 لنک کینال اور 23 بڑے نہری نظاموں پر مشتمل ہے۔
NWFP کے پاس سندھ طاس میں پانچ عوامی ملکیتی آبپاشی کے نظام ہیں، جو کہ 0.34 ملین ہیکٹر کے کل رقبے پر کام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، 431 آزاد عوامی ملکیت والی چھوٹی آبپاشی اسکیمیں ہیں، جو 0.14 ملین ہیکٹر کے لیے کام کرتی ہیں۔
Source :ASCE
UNESCO
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں