ڈاکٹر محبوب کاشمیری کا جہان شعر و سخن/نادیہ عنبر لودھی

ڈاکٹر محبوب کاشمیری پیشے سے معالج اور مزاجا شاعر ہیں – پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے ایم بی بی ایس کیا – پہلا شعری مجموعہ 1998 میں شائع ہوا جس کا نام “اسے میرا غم ستائے گا ” دوسرا شعری مجموعہ “عکس آب “کے نام سے اور تیسرا شعری مجموعہ “کیفیت “کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے – ڈاکٹر صاحب کا آبائی وطن کشمیر ہے

یہ سوچ کر نگاہ بہت نم ہوئی مِری
مٹی کی عمر بڑھ گئی اور کم ہوئی مری —
محبوب کاشمیری صاحب کی شاعری میں متنوع جذبات و احساسات ، معاشرتی مسائل ، قصہ ہجر و وصال نمایاں ہیں – غزل دیکھئے

قبول کرتی نہیں جب مری دعا بھی مجھے تو اپنے دھیان میں کیسے رکھے خدا بھی

مجھے میں تیرے چاک پہ گوندھا پڑا ہوں کوزہ گرا جو تیرے ذہن میں چہرہ ہے، وہ بنا بھی مجھے

مجھے تو چشم گماں سے دکھائی پڑتا نہیں
سو آشکار بھی ہو ، دیکھنا سکھا بھی مجھے

اگر تو اتنا ہی بیزار اور گریزاں ہے
تو میرے خواب میں آیا ہے ، تو جگا بھی مجھے

گواہی دیں گے مرے ہاتھ پاؤں میرے خلاف مرا قصور بھی میں ہوں ، مری سزا بھی مجھے

مرے خلوص کا وہ معترف بھی ہے ، محبوب
جو سب کے سامنے کہتا ہے بےوفا بھی مجھے —

محبوب کاشمیری صاحب بہترین اور قادرالکلام شاعر ہیں – وہ چھوٹی بحروں میں خوبصورت اشعار تخلیق کرتے ہیں ان کی شاعری سہل متمتع کی شاعری ہے اداسیوں کے رنگوں نے اشعار کا اثر دیرپا کردیا ہے کیونکہ غم کی کیفیت تا عمر زندہ رہتی ہے

کیسی تنہائی سے قدرت نے گزارا ہے مجھے
اس اداسی میں تو دشمن بھی گوارہ ہے مجھے

آہ سینے میں دباتے ہوئے چونک اٹھا ہوں کون سرگوشی کے لہجے میں پکارا ہے مجھے

ماں ترے لاڈ نے فطرت ہی بدل دی مری کیا کہوں تو نے بگاڑا کہ سنوارا ہے مجھے

دیکھ کر جس کو مری جان پہ بن آتی ہے ہائے وہ شخص بہت جان سے پیارا ہے مجھے

اتنا محتاط کہاں مجھ سے جیا جائے گا تو نے کیا سوچ کے شیشے میں اتارا ہے مجھے

میری بیزار طبیعت کو سکوں ہے کہ نہیں دل نے پھر ایک محبت پہ ابھارا ہے مجھے

میں تو دنیا کی محبت سے بھرا بیٹھا ہوں لوگ کہتے تھے محبت میں خسارہ ہے مجھے

محبوب کاشمیری کے تجربات و مشاہدات نے ان کی شاعری کو دو آتشہ بنادیا ہے جو انھوں نے محسوس کیا اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور برتا ان سب مشاہدات کو انھوں نے الفاظ میں ڈھال کر شاعری کا پیکر تراش لیا ہے: محبوب کاشمیری کا میدان سخن غزل ہے – غزل کے شاعر ہیں – قوافی اور ردیف کے رنگوں سے سجا شعر وسخن کا یہ جہان منفرد نوعیت کا ہے یہاں مسائل زندگی بھی ہیں اور قلبی وارداتیں بھی ہیں –

دکھنے میں خوش نظر ہے، بہت خوش لباس ہے
لیکن میں جانتا ہوں وہ کتنا اداس ہے

دیوار سے نہیں یہ اشاروں کی گفتگو
مجھ ایسا ایک شخص مرے آس پاس ہے

ممکن ہے میرا خوف ہو ، ممکن ہے وہم ہو ویسے تو یہ بھی خدشہ قرین _ قیاس ہے

معیوب ہے اچھالتے پھرنا یوں قہقہے کیسے نکالوں سر سے، جو دل میں بھڑاس ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

دھندلے دکھائی پڑتے ہیں اک دوسرے کو ہم یہ آئینہ بھی میری طرح بدحواس ہے —
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ —

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply