چائے کی شدت اور اس کا استعمال آج کی ضروریاتِ زندگی میں اول درجہ کا حامل ہے۔ ذخیرہ اندوزی سے لے کر رسد تک پھر اس کے بعد قابل رشک۔ یہ وہ عمل جو آن کی آن بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی اپنی گرفت میں کرکے ایک کپ میں مار دیتا ہے۔ یوں کہوں تو ایک کپ کی مار ہیں بس اور کیا۔؟
ان خیالات میں چند دن قبل اپنے قریبی دوست کو ٹیلی فون کیا جو اپنی سیاسی مصروفیات کے پیش نظر کافی حد تک رابطہ منقطع کر چکا تھا۔ اس چُکا کا تو مجھے علم نہیں البتہ ایک اندازہ کے مطابق اس لفظ کا مصدر لیا جائے تو چُکنا بن جاتا ہے جس کا مفہوم آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اس وقت جس ملک و قوم کا حصہ تصور اپنے آپ کو کرتا ہوں وہاں اس کا استعمال سرعام جیسے چائے کی پیالی کے ساتھ کیک رس اور چاہت فتح علی کا نام۔۔۔۔۔
آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔؟
وہ دوست قد میں چھوٹا لیکن حرکات میں متضاد، فون پہ بات ہو رہی تھی معمول کے مطابق گپ بھی اور شپ کا آغاز سلام و دعا سے ہوا۔ یہ اگرچہ ایک رسمی ہوتا ہے پر حسب معمول پوچھا کہ تم کہاں غائب ہو گئے ہو؟ ایک وقت تھا کہ کبھی کوئی دن بغیر ملے نہیں گزرا پر اب تو ۔۔۔۔۔۔ اُس کا کہنا کہ اب وقت نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔
میں ایک دم چونک گیا یہ کیسا جملہ ۔۔۔۔؟
اس پر اصرار کیا کہ میں تمھاری بات سمجھا نہیں ہوں۔ تم اس پر روشنی ڈالو۔ وہ کہنے لگا ابھی میٹنگ میں جانے لگا ہوں بعد میں کبھی بتاوں گا۔ میں نے جلدی جلدی کہا کل شام تمھارے گھر آوں گا تب اس پہ بات ہو گی ابھی فون رکھتا ہوں۔
میں اس کے لہجہ اور جملہ سے کافی حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ خیر کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہر بات میں کہنے والا یہی کہتا ہے کہ زمانہ خراب ہے لیکن سورج تو آج بھی اپنے مقررہ راستے و وقت پر طلوع ہوتا ہے۔ آج بھی ایک دن میں چوبیس گھنٹے ، سال میں بارہ مہینے ہیں پر یہ ۔۔۔۔۔۔؟
ماضی کے لوگ بھی اسی زمین سے پیدا ہو کر اسی زمین میں جا چھپے ہیں اور اب اسی دھرتی کے اوپر رہنے والوں کا عکس خود ہی تضاد لیے مسئلے پہ مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہے۔ فرق کہاں ؟
اگلے روز میں شام کو اپنے دوست اکرام کے گھر پہنچا۔ دروازے پر دستک دی اور ملازم آیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ میں نے اکرام صاحب سے ملنا ہے اس کا ایک قریبی اور آج کے زمانہ کا فریبی دوست ہوں۔ اُن سے ملنے آیا ہوں۔ اُس نے کہا اندر آئیے صاحب گھر پر ہی ہیں۔
میں کمرے میں داخل ہوا ، بے تکلفی سے ملا اور گلے لگایا۔ اُس لمحہ اس کا لہجہ بدلا بدلا ، اندر فرق ، خیال کا تضاد اور ماضی و حال کا فاصلہ نہ جانے وہ ماضی کا انسان کہاں اور یہ حال کا بے حال کہاں۔۔۔۔؟
میں بیٹھا اور اُس نے چائے بنانے کے لیے اپنے ملازم کو کہا جو اس کی فرماں برداری میں کافی احترام سے پیش آ رہا تھا۔
چند منٹوں میں چائے آئی۔ اس کے چائے کے انداز کو دیکھتے ہی میں کافی حد تک انجان بھی لگا اور حیرانی کے عالم میں چائے کو دیکھے جا رہا تو کبھی اس کے چہرے کو۔ یہ الم یا ظلم تو کبھی بے عقل کی قلم۔ سپیرے کی بین یا انسان کی توہین ، عقل کا ہادی اسی کی بربادی۔ ان تاثرات میں ابھی محو تھا کہ چائے کا پیالہ ڈسپوزیبل سفید رنگ کے ساتھ میرے آگے رکھا گیا۔ جس کو اپنے ہاتھوں میں تھماتے ہی اُس کی آواز کانوں تک ٹکراتی سنائی دی” کچھ اور ۔۔۔۔”
میں نے فوراً کہا ” نہیں جناب یہی کافی ہے ”
چائے کا ذائقہ کافی حد تک اچھا معلوم ہوا۔ اس کو پینے کے ساتھ ساتھ میں نے آخر پوچھ ہی لیا کہ آج یہ ڈسپوزیبل تک نوبت کیسے آ گئی ہے کیا گھر میں یہی چلتا ہے؟
پہلے ایک پیالہ اور ہم نوالہ پر اب مخالف نظر ۔؟
اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولا :
“اوہ پگلے یہ جموریت کی چائے ہے ”
میں چائے پیتے رُک بھی گیا اور رُل بھی۔ مزید دریافت کرنے کی کوشش کی تو اس نے جواب میں کہا ” چائے کا ذائقہ اچھا ہے؟”
میں نے کہا “بالکل۔ ”
اُس نے کہا ” تمھیں چائے سے غرض ہے وہ پیو۔”
میں نے اصرار کیا پر یہ والا کپ کیوں ؟
ایک دم یہ کہنا وہ ایک لمبا قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
” اوہ میرے یار نہ دُھونے کی فکر نہ سنبھالنے کا سیاپا، کیا سمجھے تم اب میرے چاچا ؟”
جب ان کا کام تمام ہو گیا تو پھر دوبارہ کی کیا ضرورت ۔۔۔۔۔؟
یہاں شاہ بکتے ہیں ، فقیر بکتے ہیں۔۔۔ یہ وہ جملہ جس نے ابھی تک ہوش میں نہیں آنے دیا۔ اس خطہ کے لوگ امیر ، صغیر اور کبیر سب کے سب ذائقہ ، لذت کے مارے حقیقت کھو چکے ہیں۔ علم کا فن نہ اہمیت کا تن ، اس تن کے منوں من ذخیرہ اندوزی اور چائے کا سن( زمانہ) ۔
میں نے وضاحتی وار کرتے ہوئے اُس سے پوچھا یہ مطلب ذرا سمجھاو۔۔۔۔؟
اس نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے سینہ چوڑا کیا اور ایک ہاتھ لمبا کرکے دوسری کُرسی پہ رکھا اور کہا۔
” میں نے جمہوریت میں ایک بات سیکھی ہے لفظوں میں ذائقہ ، لبوں پہ رنگ جمہوریت چائے میں میرے سنگ ، عوام کا پیسا اور یہ جنگ میرے اپنے مجھ سے تنگ ، روٹی کپڑا اور مکان ، صرف کہنے کی حد تک جان۔ ستتر سالوں میں خلوت تضاد جلوت پایا، صرف ایک ہی نعرہ گایا۔ مذہبی پُجاری اور حلوے کے ٹھیکے، اب صرف دیکھنا غُربت اوہ فیکے۔۔۔
میں نے چائے کا کپ پیا اور خالی کپ کو ابھی میز پر رکھنے لگا تو فوراً جواب آیا جاتے وقت یہ ٹوکری میں پھینکتے جانا۔۔
باہر نکلتے وقت ذہن میں بے چینی کے انبار اور ضمیر آواز دے رہا تھا۔
جمہوریت نام ہے ایک مذاق کا ، کہنے اور کرنے میں عیاں ہوا ایک فرق سیاق و سباق کا۔
ہوئے نہ اب بھی آشنا اپنے آپ سے ، تو کیا کہوں یہ نہیں مانے اپنے باپ سے ، دکھائی دی پوشاک سفید رنگ سے لبریز، پر انسان کرتا ہے انسان سے گریز۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں