یہ کیسے لوگ ہیں ! یہ سوال نہیں ، اظہارِ تعجب ہے ۔ تعجب اُن افراد پر ، سیاست دانوں پر ، دانشوروں اور گیانیوں پر ہے ، جو نفرت پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں تشدد کے پھوٹ پڑنے پر خوش ہوتے ہیں ! مغربی بنگال کے مرشد آباد میں بھیانک قسم کا ’ فرقہ وارانہ تشدد ‘ پھوٹ پڑا ہے ، اور چونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، اس لیے اس کا الزام مسلمانوں پر ہی عائد ہو رہا ہے ۔ تین افراد مارے جا چکے ہیں ، ملزم مسلمان ہی ہیں ۔ بی جے پی خوش ہے کہ اس کا ’ کام ‘ نکل رہا ہے ، اور مغربی بنگال میں وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی نیّا ڈول رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب ممتا بنرجی نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں ’ وقف قانون ‘ نافذ ہونے نہیں دیں گی ، تو مرشد آباد کے مسلمان کیوں پُر تشدد احتجاج کر رہے ہیں ؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں ، مثلاً مرشد آباد کے مسلمانوں کی شدید ترین غربت ، وہاں کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بے روزگاری ، ایک مسلم تنظیم پی آئی ایف پر پابندی – وہاں اس تنظیم کے کارکنان کی ایک بہت بڑی تعداد ہے – بی ایس ایف کی رہ رہ کر مرشد آباد کے مسلمانوں کے خلاف مبینہ سرگرمیاں ، اور زعفرانی ٹولے کی مرشد آباد میں زمین ہتھیانے اور مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی تحریک ۔ اور جیسا کہ ممتا بنرجی نے الزام عائد کیا ہے ’ سیاسی استعمال ‘ ۔ اگر مذکورہ تمام ’ وجوہ ‘ کو وہاں کے مسلمانوں کی بے چینی کا سبب مان بھی لیا جائے تب بھی یہ سوال اٹھے گا کہ کیا اس بے چینی کا ازالہ ’ تشدد ‘ برپا کرنے میں ہے ؟ ایک سوال یہ بھی اٹھے گا کہ کیا فرقہ پرستوں کے ہاتھوں مسلمان سیاسی استعمال سے بچ نہیں سکتے ؟ مانا کہ غربت کرپشن اور بدعنوانی کو بڑھاؤا دیتی ہے ، لیکن کیا عقل یہ نہیں کہتی کہ ’ بکنے اور استعمال ہونے ‘ کا نتیجہ کبھی بہتر نہیں نکلتا ۔ ایک باپ بیٹے کی لنچنگ کردی گئی ، کس قدر افسوس کی بات ہے ! اگر یہ لنچنگ مسلمانوں نے کی ہے – جیسا کہ الزام لگ رہا ہے – تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ لنچنگ کرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گیے ہیں ، ہاں وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں ، دفاع کریں ۔ مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں مسلمان اس ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے چین اور سکون سے ہیں ، ہاں ممکن ہے کہ ان کے ساتھ کچھ تعصب برتا جاتا ہو ، مگر وہاں دوسری ریاستوں کی طرح گھروں پر بلڈوزر نہیں چلتے ۔ مرشد آباد کے مسلمانوں کو اگر ممتا بنرجی سے کوئی شکایت ہے تو اس کے لیے دوسرے طریقے ہیں ، مگر پُر تشدد احتجاج اس کا طریقہ نہیں ہے ۔ بی جے پی تو چاہتی ہی ہے کہ ممتا بنرجی کی ریاست جَل اٹھے اور سارا امن اور سارا چین اور سکون غارت ہو جائے ، اور اس کے لیے وہ کوشاں بھی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ مرشد آباد کا تشدد بی جے پی اور بھگوائیوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ، اور مسلمان اس کوشش کا جانے انجانے ، اگر حصہ بَن رہے ہیں ، تو محتاط ہو جائیں ، کسی کا مہرہ نہ بنیں ، کیونکہ مسلمانوں کو مہرہ بنانے والے سیاست داں ، دانشور اور گیانی لوگ بے حس ، بے رحم اور انسانی خون دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ انہیں انسان نہیں کہا جا سکتا ، یہ سارے ملک کو نفرت کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں ، بھلے نفرت پھیلانے کے لیے ’ روح افزاء ‘ کو ، لالہ رام دیو جیسے سرمایہ داروں سے ، ’ جہادی شربت ‘ ہی کیوں نہ کہلوانا پڑے ۔ درخواست یہی ہے کہ مسلمان اور اس ملک کے تمام سیکولر و جمہوریت پسند انسان ان نفرت کے سوداگروں کے جھانسے ، مکر اور فریب میں نہ آئیں ۔
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں