قصور میں زینب کے ریپ اور قتل کے کیس اور پھر ملزم کی گرفتاری کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت شدید ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرح کا ‘ٹوئٹر سٹارم’ یا طوفان پاکستان نیوز ویک کے ایڈیٹر فصیح احمد کے ٹویٹ پر بھی کھڑا ہو گیا۔ ان کی ٹویٹ کچھ ایسی نوعیت کی ہے کہ ہم انہیں یہاں دہرا نہیں سکتے۔ لیکن آپ کو یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ ان کی کئی ایسی ٹیوٹس سامنے آئیں جن میں بظاہر انہوں نے جنسی زیادتی، ریپ، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ریپ اور اس طرح کے موضوعات پر ایسے ٹویٹس کیے ہیں جو زیادہ تر لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔
پہلے کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے۔ لیکن فصیح احمد نے اس کی وضاحت خود ہی کردی اور ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک نہیں ہوا۔
ٹوئٹر پر جہاں ایک طرف لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار اور اعتراض کیا، وہیں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ فصیح احمد کی ٹویٹس دراصل ان کے غصے، جھنجلاہٹ اور مایوسی کا نتیجہ ہیں اور یہ کہ انہوں نے سنگین مذاق یا ‘ڈارک ہیومر’ کا استعمال کرتے ہوئے اہم موضوعات کی نشاندہی کی ہے۔ ان کی حمایت کرنے والوں میں اداکارہ اور ایکٹِوِسٹ نادیہ جمیل بھی شامل تھیں، جو خود بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی تھیں اور ان دنوں انہوں نے کھل کر اس پر بات کی ہے۔
لیکن جواب میں جو ٹویٹس آئیں ان سے صاف ظاہر تھا کہ ان کے خلاف بولنے والی آوازیں زیادہ تھیں۔ بات پاکستان سے نکل کر عالمی ٹوئٹر تک پہنچ گئی اور جلد ہی نیوز ویک کے صدر دفتر تک بھی۔

امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے نیوز ویک کے عالمی ٹوئٹر ہینڈل کو ٹیگ کر کے لکھا ’ہے نیوز ویک۔ ایک بار پھر، میں ہی ہوں۔ آپ کی توجہ ایک ٹویٹ کی جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں جو ایک شخص کی جانب سے آ رہی ہے جو کہتا ہے کہ وہ آپ کے لیے کام کرتا ہے۔‘
جس کے جواب میں نیوز ویک نے لکھا ’ہماری توجہ اس جانب دلانے کا شکریہ۔ نیوز ویک پاکستان کے ایڈیٹر کی جانب سے حالیہ ٹویٹس نیوزویک کے خیالات ادارے کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے اور وہ پاکستان نیوز ویک کے ساتھ اپنے لائسینس پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔‘

ماہم علی نے لکھا ’اگر آپ فصیح احمد اور اُن کے خاندان کے ساتھ ذاتی تعلق کی بنیاد پر ان کی پبلک میں مذمت نہیں کر سکتے تو کم سے کم آپ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کے دفاع میں وضاحتیں پیش نہ کریں۔ بس خاموش رہیں۔‘
جہانزیب حسین جو ڈان اخبار کے بلاگ ایڈیٹر ہیں نے لکھا ’کسی کو ان سب لوگوں کی فہرست تیار کرنی چاہیے جو فصیح احمد کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاکہ ہر ایک کو پتا چلے کہ کیسے یہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا گروہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کیسے یہ سب ایک دوسرے کی حمایت میں قطار بنا کر آتے ہیں جو چاہے ہو جائے۔ فنون اور ثقافت کا سین اس ملک میں موروثی طور پر کرپٹ ہے۔‘
جبران ناصر نے ٹویٹ کی کہ ’ہر ایک جو جنسی استحصال کی تضحیک کرتا ہے، اس کی مذمت کی جانی چاہیے بے شک وہ کیسے اپنے آپ کو دکھاتے ہیں۔ لبرل یا قدامت پسند۔ غصے میں بے ربط بولنا کوئی توجیح نہیں، خاص طور پر ایسے شخص کے لیے جو ایک عالمی سطح کے برینڈ سے منسلک جریدے کا ایڈیٹر ہو۔‘
اُدھر لاہور لٹریری فیسٹِول پر بھی لوگوں نے تنقید کرنا شروع کر دی کیونکہ فصیح احمد ان کے بورڈ کے رکن تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہور لٹریری فیسٹول نے بھی خود کو فصیح احمد سے دور کر دیا اور ایک ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے فصیح احمد کا استعفی منظور کر لیا ہے۔
یعنی پاکستان نیوز ویک کے ایڈیٹر نے ٹوئٹر پر ایک نہایت ہی حساس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور گھنٹوں کے اندر اندر ان کی آف لائین زندگی پر اس کے اثرات صاف ظاہر ہونے لگے۔ اس سے ایک بات جو بظاہر واضح ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آزادیِ اظہار اپنی جگہ، ہر معاشرے کی کچھ ریڈ لائنز ہوتی ہیں جو آپ پار نہیں کر سکتے۔
مونس رحمان نے لکھا ’میرے خدایا۔ یہ تو گلوبلی وائرل ہو رہا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر ایسے حساس موضوعات پر۔‘
عائشہ ٹامی حق نے فضیح احمد کی حمایت میں ٹویٹ کی کہ ’جس طریقے سے ہمارے معاشرے کی تاریک رُخ پر سے فصیح احمد نے پردہ اٹھایا ہے، بہت سوں کو پسند نہ آیا ہو مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ استحصال کرنے والے نہیں ہیں، اور جن کا استحصال کیا جاتا ہے اُن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔‘

اگرچہ فصیح احمد نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس سارے معاملے پر معذرت کر دی ہے اور لکھا کہ ’میری گذشتہ روز کی ٹویٹس غصے کے نتیجے میں لکھی گئی تھیں، مناسب طریقے سے بیان نہیں کی گئیں اور غلط سمجھی گئیں۔ میں ان لوگوں کو تکلیف دینے پر معذرت خواہ ہوں جنہوں نے بچپن میں جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ میں اس برے فعل کے اردگرد موجود خاموشی کی سازش پر غصے میں تھا۔‘
بشکریہ بی بی سی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں