یہ بات میں آپکو تفصیل سے سمجھاتا ہوں:
ایک شخص آئی سی یو میں ایڈمٹ ہو۔ اس کے گھر والے، دوست رشتے دار سب مل کر اس کے لیے دعا کریں تو یہ بہت اچھی بات لگتی ہے
لیکن،
ڈاکٹر بھی علاج چھوڑ کر دعا کرنے بیٹھ جائے تو یہ قابل نفرت ہے۔
ڈاکٹر کا کام دعا کرنا نہیں، بلکہ علاج کرنا ہے
یعنی، جو بے بس ہیں ان پر دعا کرنا سوٹ کرتا ہے لیکن جس کے پاس اختیار ہے، وہ عملی کوشش چھوڑ کر دعا کرنے بیٹھ جائے تو قابل اعتراض بات ہے۔
اب ڈاکٹر عملی کوشش چھوڑ کر دعا کرنے بیٹھ جائے، اور اس پر تنقید کی جائے کہ بھائی، تم دعا ہم پر چھوڑو اور جاکر علاج کرو۔ اس پر ڈاکٹر آگے سے کہے کہ تمھیں (میرے) دعا کرنے پر بڑی تکلیف ہورہی ہے۔ یہ بتاؤ تم دعا کرنے کے کیون خلاف ہو؟
تو ایسے ڈاکٹر کو نوٹنکی باز کہا جائے گا جو جانتے بوجھتے بات گھما رہا ہے
بلکل اسی طرح مذمت کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ لاچاروں اور بے بس لوگوں کا کام ہے
لیڈر یا کسی سیاسی جماعت کا کام صرف مذمت تک محدود رہنا نہیں
لیڈر کے پیچھے لاکھوں عوام ہوتی ہے۔ وہ طاقت رکھتا ہے۔ اسے مذمت کے ساتھ ساتھ، باقاعدہ عملی جدوجہد کرنی چاہیے
اس عملی جدوجہد کے راستے میں مشکلات، تشدد، گرفتاریاں، جھوٹے کیسز، پابندیاں، دہشتگردی کے کیسز وغیرہ سب کچھ ہوگا لیکن ایک لیڈر ان سب مشکلات کے لیے تیار رہتا ہے۔ اسی لیے تو وہ لیڈر کہلاتا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے ہمیشہ ایک عمدہ ترین مثال ہے۔ آپ نے جب عملی جدوجہد شروع کی تو دنیا کی وہ کون مصیبت تھی جو آپ کے سر نہ ڈالی گئی ہو۔ دشمنوں نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کا جینا مشکل کردیا
سبق: جینوئن لیڈر ہوگا، وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مشکلات کا شکار نظر آئے گا۔ یہی اس کے سچے ہونے کی اہم ترین نشانی ہے
اس طویل تمہید کے بعد آپ کو کراچی بلدیات کی کہانی سناؤں:
کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے یہاں الیکشن کی بہت زیادہ گہما گہمی تھی اور حافظ نعیم الرحمن پورے کراچی کے ہیرو تھے۔
الیکشن ہوئے تو سب سے زیادہ ووٹ بھی حافظ نعیم الرحمن صاحب کو پڑا
لیکن،
پھر حسب توقع جھرلو پھیر دیا گیا اور پیپلز پارٹی کا مئیر کراچی پر مسلط ہوگیا۔ حافظ صاحب اور جماعت اسلامی نے ری ایکٹ کیا لیکن پیپلز پارٹی نے فسطائیت کی حدیں توڑ دیں اور بے پناہ تشدد کیا گیا
مجھے لگا اس حرکت کے بعد جماعت اسلامی مزید طاقتور ہو کر سامنے آئے گی
لیکن،
ہوا اس کے بلکل برعکس۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کے بعد سے جماعت اسلامی اور حافظ نعیم صاحب کراچی میں مکمل طور پر بیک فٹ پر چلے گئے اور غیر اعلانیہ طور پر پیپلز پارٹی کے مئیر کو تسلیم کرلیا گیا۔
میرے اپنے گھر اور خاندان والوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا۔ خود میرا سگا کزن جماعت اسلامی دستگیر سے نائب کونسلر ہے۔ ہم کراچی والوں کے لیے حافظ صاحب کا ایسا مکمل سرنڈر حیران کن حد تک شاکنگ تھا
کراچی مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا گیا اور اس حوالے سے ہر طرح کی عملی جدوجہد ترک کردی گئی
اور پھر۔۔۔۔۔۔
“مذمت” اپنالی گئی……..
اب مئیر کراچی کے خلاف دھنا دھن مذمت ہوتی ہے۔ خوب بیانات دئیے جاتے ہیں۔ تقریریں ہوتی ہیں۔ کراچی کی شاہراہوں پر بینرز بھی لگتے ہیں
لیکن،
مئیر کراچی اور پیپلز پارٹی کو زرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ وہ مزے سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ مذمت کی کیسٹ ان کا بال بھی بیکا نہیں کرپاتی
یاد رکھیں،
یہ جو مافیاز ہوتے ہیں، انھیں مذمت سے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بلکہ،
یہ مذمت اسٹائل سیاست سے بہت خوش رہتے ہیں۔
انھیں فرق پڑتا ہے “عملی جدوجہد” سے
ان کے خلاف سیاسی تحریک سے
کسی احتجاج، کسی دھرنے سے
کسی گھیراؤ سے
اجتماعی استعفوں سے
ہم کراچی والے دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف مذمت مذمت کھیلی جارہی یے، دوسری طرف پیپلز پارٹی مزے سے کراچی کو روندے چلے جارہی ہے۔ امن و آمان کی صورتحال اتنی خراب ہوچکی۔ ٹینکر والوں نے کراچی والوں کو قتل کرنے کا ایک نیا بہانہ ڈھونڈ لیا ہے۔ آئے روز لوگ کچل کر مارے جارہے ہیں۔
اپ میں سے بہت سے لوگوں کو شاید یہ خبر ہی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں ریسیڈینشل پراپرٹی پہ کمرشل ایکٹیوٹیز کی اجازت دے دی ہے۔ یعنی آپ کے گھر کے برابر میں کوئی شخص ہوٹل، مکینک شاپ یا دفتر کھول کر بیٹھ سکتا ہے اور آپ کچھ نہیں کرسکتے
تو مذمت کی کیسٹ بج رہی ہے، دوسری طرف کراچی والے کچلے جارہے ہیں
مذمت سے ظالموں کو کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا
فرق پڑتا ہے جب آپ طاقت سے انھیں روکیں یا عملی جدوجہد کریں۔ وہ کوئی بھی کرنے کو تیار نہیں۔ بس مذمت کی کیسٹ بجانی ہے
مذمت کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ ظالموں کے ہاتھ میں، ظلم کا لائسنس تھمارہے ہیں۔
مذمت انسان کو بے عمل بنادیتی ہے۔ اسے چسکا لگ جاتا ہے کہ کھال اور سیاست دونوں بچاؤ اور صرف مذمت مذمت کھیلتے رہو
ہم اربوں مسلمانوں کی مذمت، ایک فلس/طینی نہیں بچا سکی
کیوں؟
کیونکہ عام آدمی کے ساتھ ریاستیں، اور سیاسی جماعتیں بھی مذمت ہی کررہی ہیں
اس سے اسرا/ئیل کو کوئی فرق پڑتا ہے؟
مذمت کی نوٹنکی سیاست کی وجہ سے کراچی رل گیا
مذمت کی نوٹنکی کی وجہ سے امت ہماری آنکھوں کے سامنے قتل ہورہی ہے
مذمت ہرگز بری نہیں،
صرف مذمت کرتے رہنا برا ہے
آپ کو یاد ہوگا کہ مشرف، پیپلز پارٹی اور پھر نواز شریف کے دور میں ڈرون حملوں میں معصوم پاکستانی مرتے رہتے تھے اور ہمارے سیاستدان پارلیمان میں مذمت کی نوٹنکی رچاتے رہتے تھے۔
سیاستدان یا لیڈر کا کام مذمت کرنا ہرگز نہیں بلکہ ظالم کے خلاف عملی جدوجہد کرنا ہے۔ جب حقیقی جدوجہد ہوگی تو آپ ظالم کا واضح ری ایکشن بھی دیکھیں گے
مذمت آپ کو بے عمل بنادیتی ہے۔ ظالم کو مضبوط کرتی ہے۔ اسے آپ کی مذمت سے کوئی مسئلہ نہیں
وہ تو آپ کی عملی جدوجہد سے ڈرتا ہے۔
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں