جمنا کی کہانی/شہناز احد

میں جمنا !
چند لمحے قبل مجھے دروازہ کی گھنٹی کی آواز آئی تھی اور میں منتظر تھی کہ کوئی بتاۓ کون آیا ہے؟
میں جمنا کی آواز پر میں نے اخبار پڑھتے، پڑھتے گردن موڑ کے دیکھا، ایک انتہائی گھسے اور دھندلاۓ ہوۓ پھولوں کا گھاگرا بلاؤزپہنے، سر پر سلیقے سے سوراخوں بھرا دوپٹہ جماۓ،کھڑے نقوش،ہلکے براؤن رنگ کی آنکھیں، ناک میں موٹی سی لونگ،ساٹھ کی دہائی سے کچھ اوپر جاتی عمر،دونوں ہاتھ جوڑے “ میں جمنا” الف کی طرح سیدھی کھڑی تھی۔
لمحے کے چوتھائی حصے میں اس کی جانب دیکھتے ہوۓ مجھے احساس ہواکہ یقینا ًاک زمانہ اس کھڑے الف پر سے گزرا ہواہے۔
میں شہناز ہوں جمنا!آؤ بیٹھو، میں نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
آپ نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو بولا، جمنا نے اٹک ، اٹک کر بولتے ہوۓ تصدیق چاہی۔ گردن کو ہاں میں ہلاتے ہوۓ میں نے پوچھا” پانی پیو گی”۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے دوبارہ ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا” مہربانی “۔
مجھے کچن کی طرف جاتا دیکھ کے وہ لپک کے میرے پیچھے آتے ہوۓ بولی “آپ مجھے بتاؤ باجی، پانی کدھر ہے،میں آپ کی خدمت کے لئے آئی ہوں”۔
جمنا!مجھے گھر میں ایک انسان کی ضرورت ہے،خدمت گار کی نہیں۔ میری بات کے جواب میں، میری طرف پلٹتے ہوۓ اس نے دوبارہ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوۓ آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا” بھگوان تو بہت بڑا ہے”۔
پانی پی کر وہ واپس لاؤنج میں آئی تو میں نے پوچھا” جمنا تم کیا کھاتی ہو”۔
“میں سب کھاتی ہوں باجی! بھگوان نے کھانے کی سب چیزیں کھانے کے لئے بنائی ہیں۔ میں کون ہوتی ہوں یہ کہنے والی کہ یہ کھاؤں گی اور یہ نہیں کھاؤں گی۔ جب کھانے کو نہیں ہوتا بھگوان بھی نہیں پوچھتا “۔
مجھے بے اختیار اپنی نوجوانی کے دنوں کے وہ سارے مباحث یاد آگۓ۔ جیسے بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی،جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روٹی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو وغیرہ وغیرہ۔
میں نے دوبارہ اخباراٹھایا تو اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا” یہ ٹی وی چلتا ہے”۔ میری مسکراہٹ نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ریموٹ میری طرف بڑھاتے ہوۓ کہا آپ ایک دفعہ بتادو پھر میں سنبھال لوں گی۔
ٹی وی کھولتے ہوۓ میں نے پوچھا” کیا دیکھوگی”۔ ترنت جواب آیا”کوئی  بھی جیو، شیو لگا دو ، میرے کو کون سا پاکستان چلانا ہے جو خبریں دیکھوں”۔
مختلف چینلز کو آگے پیچھے کرتے ہوۓ، میں نے ایک چینل پے چلتے ڈرامے کے بارے میں پوچھا یہ دیکھو گی۔ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ اس نے زور سے کہا”نہ بابا نہ،ادھر تو ہر وقت ساس بہو کی لڑائی چلتی ہے۔ کسی کی بہو اچھی بھی ہوتو یہ ڈرامے اس کو خراب کردیں گے”۔
اس کے جملے سے محظوظ ہوتے ہوۓ مجھے احساس ہوا کہ جمنا ایک دلچسپ سنگت ہے۔ اس کے جملوں کی کاٹ،برجستگی اور حاضر دماغی مزا دینے لگی تھی۔
میں نے بات کرنے کے لئے اس کی طرف دیکھالیکن وہ سر تاپا ڈرامے میں غرق مسکرا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ اتنی خود ساختہ تھی کہ میں نے اسے مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
آدھے گھنٹے بعد تین اطراف کے مائیک باآواز بلند اذانیں نشر کرنے لگے تو جمنا نےٹی وی بند کرتے ہوۓکہا “ اچھا نہیں لگتا”۔
جمنا! آپ کدھر کی ہو؟میرے سوال کے جواب میں اس نے بھنویں اچکاتے ہوۓ جواب دیا۔ “میں تو کراچی کی ہوں، ایک دم خالص کراچی کی،میرا باپ، اس کاباپ سب کراچی کے ہیں۔ مجھے چار زبان بولنی آتی ہے۔ “اس نے فخریہ زبانوں کی تفصیل بتائی کہ وہ کھچی،سندھی،اردو اور مارواڑی بول لیتی ہے بس بلوچی اور پشتو نہیں آتی۔ اس کی زبان دانی کو سراہتے ہوۓ میں نے کہا” یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے،تم تو بہت قابل ہو”۔
اپنی تعریف سن کے خوش ہوتےہوۓ کہنے لگی” ہم پشتوں سے لی مارکیٹ پے رہتے ہیں۔ ادھر سب زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کاروباری علاقہ ہے نا،ہم لوگ تو خیر مزدوری کرنے والے ہیں،کوئی پورٹ پر کام کرتا ہے تو کوئی چاول،دال کے کارخانوں میں، سب اپنے نصیب کا کھاتے ہیں۔ پہلا وقت بہت اچھاتھا، سب مل کے رہتے تھے اب ایسا نہیں ہے،اب ایک دوسرے سے منہ موڑ کے چلتے ہیں،اپنی اپنی زبان والے سے بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہم ۹ بہنیں اور پانچ بھائی تھے، اوپر والے نے سارے بھائی اور پانچ بہنیں واپس بلا لیں۔ پہلے خوشی، غمی کے علاوہ بھی سب ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے،ہنستے بولتے تھے ابھی پتہ نہیں کیسا وقت ہے، کوئی کسی کو ملنا نہیں چاہتا،بہن کے جاؤ تو سب کی شکل سے لگتا ہے، یہ کیوں آگئی،کوئی کسی کو کھانے،چاۓ کا نہیں پوچھتا،مہنگائی  بھی بہت ہے،آواز کو دباتے ہوۓکہا،جس بیٹے کے پاس رہتی ہوں اس کے چار لڑکیاں ہیں،دن بھر مزدوری کرتاہے،بڑی مشکل سے کھانا پینا چلتاہے،چوتھی لڑکی ہوئی میں نےبہو کو بولا بس کردے،یہ کیسے پلیں گے،وہ میرے کو کہتی ہے تو جلتی ہے، میرے لڑکا نہ ہوجاوے،اب اس کو کون عقل دے،میرے تین بیٹے ایک بیٹی ہے، میں نے اپنے آدمی کو بولا بچے بند کرو، اس نے اپنا آپریشن کرایا، میرا آدمی بہت سمجھدار تھا، وہ وقت بھی اچھاتھا،میرے شوہر کا بینک میں ذاتی کھاتا تھا،جو پیسہ فالتو ہوتا،کمیٹی ڈالتا سب کھاتے میں جمع کرتا،ہم سال میں ایک مرتبہ گھومنے جاتے، بچوں کی شادیاں بنائیں،
جمنا! اپنی زندگی کو چھوٹے، چھوٹے جملوں میں rewind کر رہی تھی اور میں خاموشی سے سن رہی تھی۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ میں نے پوچھا کھانا کھائیں، سو بسم اللہ کہتی اپنا گھاگرا سنبھالتی سیدھی کھڑی ہوگئی۔
کچن میں کھانا گرم کرتے اور نکالتے دیکھ کے اس نے پھر بولنا شروع کردیا۔ کھانا کون بناتاہے؟ آپ کو رسوئی کاکام آتاہے؟آپ نے کبھی نوکری کی ہے؟
اس کے تمام سوالوں کا جواب میں نےایک “ہاں “ میں دیا تو حیرت زدہ آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوۓ مسکرا کے منہ نیچے کرلیا۔ اس کی حیرت کو کم کرنے کے لئے میں نے پوچھا” روٹی کھاؤ گی چاول”میرے سوال کا بے ساختہ جواب آیا” دونوں چیزیں کھا سکتی ہوں”۔ بالکل کھا سکتی ہو، کاؤنٹر پر رکھی ڈشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوں میں نےکہا” جو کھانا ہے لے لو، میں ایک فون کرکے ابھی آتی ہوں۔
سچ بات یہ ہے کہ اس کے سوال دونوں چیزیں کھا سکتی ہوں نے مجھے اندر تک ہلا دیاتھا۔ مجھ میں مزید اس کے سامنے کھڑے رہنے کی ہمت نہیں تھی۔
کھانے سے فراغت کے بعد میں نے اس کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا جمنا تھوڑی دیر آرام کرو شام کو باتیں کریں گے۔ میری بات کے جواب میں دونوں ہاتھ جوڑ کے اس نے پرنام کیااور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اپنے کمرے میں لیٹی میں اپنی سوچوں سے الجھتی رہی،کھانا،بھوک،غربت،بے کسی، لاچاری،دنیاکی بے ثباتی،رنگینی،روشنی،اندھیرا،مکڑی کا جالا،یہ زندگی مکڑی کا ایک جالا ہی تو ہے،نہیں وہ گول ہنڈولہ ہے جو کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے، نیچے اوپر کے اس کھیل میں یہ کیوں نہیں ہوتا کہ نیچے والا ہنڈولہ اوپر ہی ٹھہر جایا کرے۔
سوچتے ، سوچتے دماغ کی چولیں ہل گئیں۔ شام کے پانچ بج گۓ۔ میں نے کمرے سے باہر آکے چاۓ بنائی۔ جمنا کے خراٹوں کی آواز پورے لاؤنج میں گونج رہی تھی۔ شام کے چھ بجنے کوتھے۔ میری دوتین آوازوں کے جواب میں وہ یہ کہتی ہوئی “بہت سکون ہے آپ کے گھر میں” سیدھی کھڑی ہوگئی۔
وہ چاۓ پی رہی تھی ، میں بے خبری کی خبریں سن رہی تھی۔
اسکرین پر ایک شکل کے نمودار ہوتے ہی اس کی زبان کا صندوقچہ پھر سے کھل گیا اور اس نے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوۓ کہا” ادھر کسی کو حکومت کرنا نہیں آتا، سب بدمعاش ہیں، لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، غریب کی کسی کو پرواہ نہیں ہے، بہت برا وقت ہے، کوئی کسی کا نہیں،میرا آدمی روز آتے جاتے ماں کے پاؤں چھوتا تھا،اب کچھ نہیں ہے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملتے ہوۓ اس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوۓ جملہ مکمل کیا۔ بیٹا آتا ہے سیدھا بیوی کے پاس جاتاہے،میں نے بھی ساری زندگی کام کیا، جب شہر میں پچاس روپے فی کام ہوتا تھامیں تب سے کام کرتی ہوں،تین چار گھر میں کام کرتی تھی، اچھا پیسہ کماتی تھی، میں بھی خوش رہتی تھی۔ گھر میں بھی سب خوش رہتےتھے،ابھی نہ گھر میں خوشی ہے نہ لوگوں میں، سب منہ موڑ کے چلتے ہیں۔
میں نے موضوع بدلتے ہوۓپوچھا تم کبھی انڈیا گئی ہو؟
میری ایک بیٹی کا بیاہ ادھر ہواہے،میرے شوہر کی ذات کے لوگ ادھر ہیں، اچھے کھاتے پیتے ہیں،گھر میں پورا اناج ہوتا ہے، میری بیٹی بنگلے میں رہتی ہے، مجھے بہت بلاتی ہے کہ میں اس کے پاس رہوں، آپ بتاؤ داماد کے گھر کتنے دن رہ سکتی ہوں، ابھی تو دور سے جاتی ہوں ہفتہ دس دن رہ کے بھائی کے گھر چلی جاتی ، اپنے چھوٹے بیٹے سے بھائی کی بیٹی لائی ہوں، بہت تیز ہے بابا، میں تو بولتی نہیں، کون مغز خراب کرے۔
تم کو انڈیا کیسا لگتا ہے؟میرے سوال کے جواب میں وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی”سچ بولوں”
بالکل سچ میں نے اس کا حوصلہ بڑھاتے وہ کہا۔
“مجھے اچھا نہیں لگتا، میرا تو ادھر کچھ بھی نہیں ہے، بھائی تھےمرکھپ گۓ،بیٹی ہے، اللہ اس کو آباد رکھے،میرا ادھر کیا ہے، کراچی میں تو میرے پرکھوں کی مٹی ہے،میرا تو سب کچھ کراچی اور پاکستان ہے”۔
جہاں تک بات دھرم کی ہے تو دھرم تو من کے اندر ہے،شہروں میں تھوڑی ہے،اب میں آپ کے گھر میں بیٹھی ہوں،ماشااللہ سے میرا دھرم تو میرے اندر ہے نا ، اس نے بہت ہی دانش مندانہ اندازمیں اپنی سوچ کی وضاحت کرتے ہوۓ کہا۔
تھوڑی دیر کی خاموشی کےبعد نیا آغاز لیتے ہوۓ یوں گویا ہوئی” ایک بات ہے انڈیا کی حکومتوں کو حکومت کرنا آۓ”۔ کیا مطلب؟ میرے سوالیہ جملے کی وضاحت اس نے کچھ یوں دی۔ “ آپ کو پتہ ہے انڈیا میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں،کتنے دھرم ہیں،اور اندر میں کتنے سارے شہر ہیں۔ یوپی، پنجاب،بمبئ، دہلی اور پتہ نہیں کیاکیا، میرا آدمی مجھے بتاتا تھا اس کو سب نام یاد تھے۔ اور ادھر پاکستان میں تو ہر وقت لڑائی چلتی ہے، جو بھی حکومت ہو بس لڑتے رہتے ہیں۔ “ چند لمحوں کے توقف کے بعد جمنا نے آنکھیں گھماتے ہوۓ کہا “ باجی مودی میں طاقت بہت ہے”۔
مودی کون ہے؟ میرے سوال پے سراپا حیرت بنتے ہوۓ اس نے مجھ سے پوچھا “ آپ انڈیا کے بادشاہ کانام نہیں جانتے؟میرے انکاریہ جواب پے وہ کافی دیر تک وقفے،وقفے سے میری طرف دیکھتی رہی۔
ٹی وی پر ڈرامہ شروع ہوا تو ساتھ ہی اس کا رخ بھی بدل گیا۔ اشہتارات آنے شروع ہوۓ تو اس نے منہ بناتے ہوۓ کہا بہت وقت خراب کرتے ہیں۔
وہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی میں اسے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کاش میرے بس میں ہوتا میں اسے کوئی ڈگری،ڈپلومہ، سر ٹیفکیٹ دے سکتی۔ وہ آج کے سینکڑوں کاغذی ڈگری والوں سے زیادہ عقل اور دانش کی مالک ہے۔
رات کے کھانے سے فارغ ہو کے وہ میرے پاس آئی اور بہت دھیمے سے پوچھا” آپ کو مالش، والش یا ٹانگیں دبا دوں۔
جواب میں جس سرد لہجے میں ، میں نے “ نہیں” کہا ، اسے فریز کرنے کے لئے وہ کافی تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹی وی بند کرنےکا اعلان کرتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
بستر پے جانے سے پہلے اس رات میں نےاس کے بارے میں بہت کچھ سوچا اور فیصلہ کیا کہ میں اس کی کہانی ضرور لکھوں گی۔
اگلی صبح اپنے معمولات سے فراغت کے بعد میں نے ٹی وی پے خبریں دیکھیں، موبائل چیک کیا،ساڑھے آٹھ بج رہے تھے،جمنا بے خبر سو رہی تھی، اس کے خراٹے میں لاؤنج میں بیٹھی با خوبی سن رہی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں اور آگے کی طرف بڑھیں تو میں نے اس کے کمرے پے دستک دیتے ہوۓ اسے پکارا، میری آواز کے جواب میں وہ سلام باجی کہتی ہوئی سیدھی کھڑی ہوگئی۔ آرام سے اٹھو کہتی ہوئی میں کچن کی طرف آگئی۔ ناشتہ بناتے ہوۓ میں نے پوچھا کیا کھاؤ گی ؟
اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پیٹتے ہوۓ کہا” باجی میری اتنی اوقات کہاں کہ میں بتاؤں آپ جو دوگے، جو کھاؤ گے میں وہی کھاؤں گی”۔
ناشتہ کرتے ہوۓ، خود کلامی کے انداز میں کہنے لگی” وقت بہت برا اور بڑا سخت ہوگیا ہے، پہلے رمضان آتا تھا تو تین ، چار دفعہ راشن ملتا تھا،ہمارے علاقے میں ٹرک بھر، بھر کے لوگ دینے آتے تھے، ان کو ثواب ملتاتھا ، ہمارے بھی دو تین مہینے اطمینان سے گزر جاتے تھے،اس رمضان چاول کا ایک دانہ نہیں ملا۔ وقت خراب ہی ہوا نا”۔
چاۓ کا بڑا سا گھونٹ کھینچتے ہوۓ کہنے لگی “ پہلے لوگ بہت نظر نیاز کرتے تھے ، مہینے میں ایک بار ضرور ٹرک پے کھانا آتا تھا،سب لوگ خوش ہوجاتے تھے، ابھی تو پورا سال ہوگیا کوئی نیاز، شیاز کاکھانا نہیں آتا، میرا بیٹا کہتا ہے ماں اب فیشن بدل گیا ہے”۔
میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہنے لگی “ کیا غریبوں کو کھلانے کا فیشن بدل گیا ہے، کیا آپ نیاز نہیں کرتے”۔ چند لمحوں کے توقف سے بہت سوچ، سوچ کے میں نے کہنا شروع کیا” جمنا شہر بہت بڑا ہوگیا ہے، شہر میں لوگ بھی زیادہ ہوگۓ ہیں، دینے والے ہاتھ اتنے نہیں ہیں جتنے لینے والے،رمضان میں چھوٹے علاقوں کے لوگ بھی کراچی آجاتے ہیں مانگنے، کھانے کےلئے، اس سبب اب سب کو سب کچھ نہیں ملتا”۔
میری بات کے جواب میں اس نے تیزی سے کہا “ باجی آپ کیا بات کرتے ہو،ایسا سوکھا رمضان تو میری زندگی میں کبھی نہیں آیا، پہلے تو لوگ کپڑے بھی دیتے تھے ابھی تو چاول کا دانہ بھی نہیں ملا”۔
جمنا! کی غربت، ضروریات سب نوحہ کناں تھیں۔ اس کے ہر شکوہ شکایات کا میرے پاس کوئی مدلل جواب بھی نہ تھا لیکن اس کی باتوں میں وزن تھا،سوچ تھی۔
میں نے ہنستے ہوں کہا جمنا! تم ایک دم گنگا جمنی ہو۔ تم جانتی ہو گنگا جمنی کیا ہوتاہے؟ میری طرف دیکھتے ہوۓ کہنے لگی “ آپ پڑھی ، لکھی بات کر رہے ہو “۔
نہیں !میں نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا”جب کپڑوں پے سنہرا اور سلور رنگ کے سلمیٰ ستارے کا کام ملا کے کرتے ہیں تو زردوزی والوں کی زبان میں اسے گنگا جمنی کام کہتے ہیں”۔
میری لمبی تشریح کو اس نے منہ کھول کے سنا اور ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ کہتی ہوئی چاۓ کے برتن سمیٹ کے کچن کی طرف چل دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply