بلوچ سیاست کے بدلتے رنگ/ محمد عامر حسینی

“پیٹی بورژوازی(چھوٹے اور درمیانے سرمایہ داری رشتوں سے مل کر بننے والے سماجی طبقاتی گروہ جیسے درمیانی ، چھوٹی صنعتوں اور ٹھیکے دار فرموں کے مالکان، دکاندار، تاجر ، پروفیشنل بشمول ملاں ، ڈاکٹر، انجنئیرز، پروفیسرز، کنسلٹنٹسی، لاء فرموں کے مالکان وغیرہ) کا سر آسمان کی طرف اور پاوں کیچڑ میں ہوتے ہیں” – کارل مارکس

“معلق ، ڈھلمل، راہ فرار ، سمجھوتہ بازی اور انقلابی لفاظی ان کے مجموعی طبقاتی کردار کا سب سے بڑا تشکیلی عنصر ہوا کرتی ہے ”

کسی سماج میں جب سماجی ہلچل جنم لیتی اور حکمران طبقات اور ریاستی ادارے بڑے بحران میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ ایسے روایتی سیاست دان اسے اپنے حق میں کرنے کے لیے انقلابی سورما کے نقاب پہن لیتے ہیں جنھیں حکمران طبقات کے قائم کردہ سیٹ اپ میں اپنے حسب منشا جگہ نہیں مل پاتی – یہ “باغی اور منحرف ” ہونے اور اپنی قوم کا مسیحا و نجات دہندہ ہونے کا سانگ بھر لیتے ہیں لیکن حکمران طبقات سے کسی بھی ممکنہ سمجھوتے اور مصالحت کا پچھلا دروازہ کھولے رکھتے ہیں –

اگر ایسے نقالوں کا تعلق کسی سامراجی نوآبادیاتی ریاست میں قومی جبر و ظلم کا شکار قوم کی پیٹی بورژوازی طبقے سے ہو اور اس قوم کی قومی تحریک سیاسی طور پر عوامی ابھار کے درمیانے یا اعلی مرحلے میں داخل ہورہی ہو اور اس تحریک میں اشراف اور درمیانے طبقات کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں نچلے طبقات کی شرکت صاف نظر آرہی ہو تب نوآبادیاتی ریاست کی جانب سے کسی بہت بڑے شدید ردعمل کے سامنے اس مظلوم و محکوم قوم کے طبقہ اشراف اور درمیانے طبقے سے آنے والی قیادت کی اکثریت کا اپنے طبقات کے مجموعی کردار سے غداری اور بغاوت کرنے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں اور وہ ریاست سے کسی لمبی لڑائی لڑنے کی طرف ہر گز نہیں جاتے بلکہ درمیانہ راستا تلاش کرتے ہیں اور جان بچا کر نکل جاتے ہیں –

بلوچستان یک جہتی کمیٹی کی جدوجہد جب سے عوام رابطہ مہم ، بیداری و آگاہی کے مرحلے سے آگے نکل کر قومی ابھار کے مرحلے میں داخل ہوئی تھی اور جواب میں ریاستی جبر میں شدید اضافہ دیکھنے کو مل رہا تھا تو تب ساتھ ساتھ بلوچستان میں بلوچ اکثریت کے علاقوں میں بلوچ قوم کے عوامی گروہ اور نچلے طبقات میں آئے دن چاہے وہ وفاقی پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتیں ہوں یا بلوچ قوم پرست پارلیمانی سیاست کرنے والی ہوں یا مذھبی سیاست کرنے والی ہوں کی سیاسی قدر ق قیمت گھٹتی جارہی تھی اور خود پیٹی بورژوازی عوامی پڑتیں ان کی سیاست سے لاتعلق ہورہی تھیں جبکہ نچلے طبقات سے تو ان کا رابطہ ویسے ہی عرصہ دراز سے منقطع ہوچکا تھا –

ایسے میں ان کے لیے ایک تو بلوچستان یک جہتی کمیٹی کی قیادت اور اس کی تحریک کی مخالفت ناممکن ہوچکی تھی اور ابھی بھی ہے – لیکن انھیں یہ بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر اس مرحلے پر انھوں نے اس تحریک کے مطالبات پر “بے نیازی” دکھائی تو وہ بلوچ سیاست سے بالکل باہر ہوجائیں گے –

دو جماعتیں ایسی ہیں جنھوں نے اس پیش آمدہ صورت حال میں اپنی جماعتوں کی سیاست کو بچانے کے لیے اپنی سیاسی سٹریٹجی میں تبدیلی پیدا کی – یہ تبدیلی ایک طرف تو ریاست پر دباؤ بڑھاکر طاقت اور اقتدار کی موجودہ ھیرارکی درجہ بندی میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا اور دوسرا بلوچ سماج میں اپنی ساکھ بہتر بنانا تھا –

پہلی جماعت نیشنل پارٹی ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے باغیانہ اور منحرف ماسک چڑھانے کی بجائے اصلاح پسندی کا نرم و گرم غلاف چڑھایا اور اسٹریٹ ایجی ٹیشن میں جانے کی بجائے صرف بیانات کی حد تک ایجی ٹیشن دکھائی لیکن ریاست کے پاور اسٹرکچر میں کٹھ پتلی سمجھے جانے والوں سے بھی روابط ختم نہ کیے اور نہ انھیں کوئی ٹف ٹائم دیا – یہ حکمت عملی دونوں سطحوں پر ناکام ہوگئی نہ انھیں بلوچ کٹھ پتلیوں نے زیادہ سنجیدہ لیا اور نہ ہی پنجاب کی طاقتور سیاسی فریق نواز لیگ نے کچھ لفٹ کرائی – خود بلوچ عوام نے ان کو مسترد کردیا –
دوسری جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی – مینگل تھی جس کے سربراہ سردار اختر مینگل نے 2018ء میں وفاقی پارلیمانی سیاست میں اپنے پرانے اتحادی نواز شریف کہ خوشہ چینی کرنے کی راہ سے علیحدگی اختیار کی اور اسٹبلشمنٹ کے نئے لاڈلے عمران خان کے ساتھ اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی اور بلوچستان میں اپنی جماعت کو بادل نخواستہ جونیئر شراکت دار بنایا – اور بلوچ عوام کو رام کرنے کے کیے عذر یہ پیاس کیا کہ وہ جبری گمشدگان کو واپس لائیں گے اور بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کو سافٹ کرنے میں کامیاب ہوں گے – بنیادی طور پر یہ راستا انھوں نے بلوچستان کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی طبقات کو مطمئن کرنے اور انھیں رشوت میں زیادہ سے زیادہ حصہ دلوانے کے نام پر اختیار کیا تھا جسے انھوں نے ریڈیکل اصلاح پسندانہ قوم پرست سیاست کے پردے میں چھپایا تھا – انھیں اچھے سے پتا تھا کہ اس راستے میں وہ زیادہ سے زیادہ اپنے وڈھ کے علاقے کے لیے ترقیاتی فنڈذ، نوکریاں اور بلوچستان میں معدنیات کے کچھ ٹھیکے ہی حاصل کر پائیں گے – وہ اس راستے پر قریب قریب ڈھائی سال چلتے رہےاور جب اسٹبلشمنٹ کا لاڈلہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کے لیے اثاثے سے کہیں زیادہ بوجھ بننے لگا اور بدلتے قومی و بین الاقوامی تناظر میں رخصت ہونے والی اسٹبلشمنٹ کی قیادت کے کئی اسٹبلشمنٹ کے اہم مقتدر عہدوں پر فائز ہونے کی جنگ ہارنے لگے اور ان کے ساتھ شامل اس وقت کے آرمی چیف نے ان سے اپنی راہ الگ کرلی اور اس نے عمران خان کے سامنے نئے انتخابات سے قبل اپوزیشن سے سمجھوتہ کرنے پر زور دیا اور سامنے سے انکار ہوا تب ان کی رخصتی کے کیے بساط بچھائی گئی- اس بساط کی اہم ترین چال عدم اعتماد تھی جس سے رجیم تبدیل ہونا تھا تو سردار اختر مینگل نے ہوا کی تبدیلی کا رخ پہچان لیا اور انھوں نے قومی اسمبلی میں ایک انتہائی “ناراض بلوچ سیاست دان” کا روپ دھارا اور ان کی تقریروں میں باغیانہ رنگ جھلکنے لگا – انہوں نے اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی اور عمران حکومت گرانے میں ان کی جماعت کے ووٹ بھی کام آئے – اس ساری پریکٹس میں انھیں بلوچ نیشنل پارٹی ، اچکزئی کی پارٹی اور جے یو آئی ایف کی طرح یقین تھا کہ نئے انتخابات میں انھیں بلوچستان میں اتنا حصہ ملے گا کہ وہ نہ صرف مرکز میں اچھی پوزیشن میں ہوں گے بلکہ سردار اختر مینگل کو تو یہ بھی یقین تھا کہ بلوچستان حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ان کی پارٹی براجمان ہوگی – لیکن فروری 2024ء کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی منشاء کیا تھی ؟ یہ انھیں انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی پتا چلا – وہ نہ صرف مرکز میں حاشیے پر چلے گئے بلکہ بلوچستان میں جو نیا سیاسی سیٹ اپ سامنے آیا اس میں بھی انھیں ایسے لوگوں کا سامنا تھا جو بلوچستان کی سیاست کے انتہائی بدنام ترین کردار تھے – ان کے جونیئر شراکت دار بن کر بلوچستان میں ایک ایسی سیاست کا علمبردار بن کر رہنا جو مزاحمتی قومی سیاست اور علیحدگی پسند عسکریت پسندی کی طرف ہمدردانہ رویہ رکھتی ہو یہ کسی صورت ممکن نہیں تھا – ان کی بلوچ عوام میں وقعت اور اہمیت تیزی سے گرنے لگی اور ساتھ ساتھ بلوچستان میں قومی مزاحتمی سیاست کس محور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بنتی چلی گئیں –

انھوں نے بلوچستان یک جہتی کمیٹی کے زیر سایہ چلنے والی قومی تحریک کی طرف ہمدردانہ رویہ تو رکھا لیکن اس میں شامل ہونے کی ہمت کرنے کی بجائے قومی اسمبلی سے استعفا دیا اور ایسا تاثر دیا جیسے انہوں نے اپنا سیاسی سفر ختم کردیا ہے- وہ یہاں تک بیانات دیتے پائے گئے کہ وہ بلوچستان یک جہتی کمیٹی کی مرکزی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ایک عام رکن کے طور پر بھی کام کرنے کو تیار ہیں – وہ ٹونٹی پر پر گھر بیٹھے انتہائی ناراض منحرف سیاست دان کا امیج بلڈ کرتے رہے- اس دوران نہ تو انھوں نے اپنے اراکین قومی اسمبلی سے استعفا دلوایا نہ صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہوئے نہ سینٹ سے الگ ہوئے – یہ اثاثے انھوں نے بچا کر رکھے – نہ ہی انھوں نے بلوچستان کی خودمختاری کے لیے بلوچ نیشنل فرنٹ – بی این ایف جیسا اسٹیٹس اپنی جماعت کو دیا – یہ ضرور ظاہر کیا کہ بہت جلد شاید وہ بلوچستان کے سید علی گیلانی بن جائیں –

جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ کیس کے بعد سے جو صورت حال تبدیل ہوئی اور بلوچستان یک جہتی کمیٹی کے بارے میں ریاستی بیانیہ تبدیل ہوا اور بلوچستان یک جہتی کمیٹی کے قریب قریب تمام اہم رہنماء پس دیوار زنداں دھکیل دئے گئے تو ان کو ایسے لگا کہ جیسے بلوچستان یک جہتی کمیٹی کی بلوچ عوام میں مقبولیت کو اپنی اور اپنی پارٹی کی مقبولیت کے لیے استعمال کر پائیں گے – صرف وہی نہیں بلکہ بلوچستان کی اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر انھیں ایسا لگا کہ جیسے وہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کو بھی گرا دیں گے – ان کے لانگ مارچ کا سب سے بڑا ہدف بلوچستان کی موجودہ حکومت گرانا تھا-
بلوچستان یک جہتی کمیٹی نے ان کے لانگ مارچ کی حمایت تو کی لیکن انھوں نے احتجاج ، مظاہرے ، دھرنوں کی کال اپنے پاس رکھی اور اپنے پلیٹ فارم سے اسے جاری رکھا – انہوں نے اپنے آپ کو بلوچستان کے روایتی اپوزیشن سیاست دانوں سے فاصلے پر رکھا –

سردار اختر مینگل نے کوئٹہ سے دور دھرنے کو جب محدود کردیا اور لانگ مارچ کو کوئٹہ کی طرف حرکت نہ دی اور لڑائی سے نہ صرف گریز کیا بلکہ خود کو گرفتاری سے بھی محفوظ رکھا اس نے ان کی کیپسٹی اور کمزوری دونوں کو ننگا کردیا –

دھرنے کے دوران انھوں نے ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ سمیت بلوچستان کمیٹی کی خواتین۔ قیادت بلوچ قومی مزاحتمی قیادت کے طور پر پیش کرنے کی بجائے انھیں بلوچ قبائل کی ماں ، بہنیں ، بیٹیاں اور عزت اور آبرو کا جو بیانیہ اپنایا جو دیگر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اپنایا اس نے بھی ان کے عزائم بارے بلوچ سیاسی تحریک کے سیاسی کارکنوں اور انقلابی قوم پرستانہ موقف رکھنے والی دانش کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا –

جے یو آئی ایف کی قیادت بھی اچانک سے اینٹی اسٹبلشمنٹ نعرے بازی ترک کرکے ایک مصالحت کار اور سہولت کار بن کر سامنے آئی – مینگل نے ان کی یہ تجویز بھی مان لی کہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت بلوچ اسیر خواتین کو جیلوں سے نکال کر ہاوس اڑیسہ کردیا جائے – یہ تجویز اس لیے رد نہیں ہوئی کہ اسے اسٹبلشمنٹ نے رد کیا جیسا دعوا جے یو آئی ایف کی لیڈر شپ کرتی ہے بلکہ یہ اس لیے فیل ہوئی کہ اسے خود بلوچستان یک جہتی کمیٹی کی قیادت نے ماننے سے انکار کردیا – وگرنہ یہ تجویز بیل چڑھنے تھی اور مینگل کا لانگ مارچ کوئٹہ پہنچتا اور وہاں بلوچ اسیر خواتین کو ہاوس اریسٹ کرانے کا سہرا مینگل اور دیگر جماعتیں اپنے سر باندھ لیتیں اگر بی وائی سی راضی ہوجاتی –
مینگل صاحب اپنے گھر لوٹ گئے ہیں – ان کی مہم جوئی ناکام ہوئی ہے – اگلے کئی ماہ اور سال وہ اس بارے میں صفائیاں دیتے گزاریں گے –

julia rana solicitors

بلوچستان یک جہتی کمیٹی اس وقت بھی بلوچ قومی تحریک کے ہر اول دستے اور سب سے زیادہ ترقی پسند عناصر اور موقف کے ساتھ موجود ہے – اس کی ساکھ بلوچ عوام میں موجود ہے – اگرچہ اسے سخت ترین ریاستی جبر ، پروپیگنڈے کا سامنا ہوگا – اسے پوری کوشش کی جائے گی کہ وہ اپنا پرامن عدم تشدد پر مبنی حقوق کی بازیابی اور بلوچ قوم کی بیداری و آگاہی کے راستے سے منحرف ہو یا وہ تشدد کا راستا اختیار کرے یا وہ سمجھوتہ کرلے -ریاست کی پوری کوشش ہے کہ اس کی جو بھی حمایت پنجاب کے اندر موجود ہے اسے پنجابی قوم پرستی اور شاونزم کی تلوار سے کاٹ ڈالے – وہ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ اپنے بیانات میں بلوچ نسل پرستی کےپرتشدد نعروں اور مفروضات کو باقاعدہ شامل کرے تاکہ اسے پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے ساتھ جوڑا اور فٹ کیا جاسکے –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply