ترقی پسندوں کے رانگ نمبرز(2-آخری حصہ )-یاسر جواد

روشن خیالی کے بقیہ رانگ نمبرز

julia rana solicitors london

بیل گاڑی پہ سوار گورڈیاس نامی ایک کسان فریجیا کے دارالحکومت میں داخل ہوا تو وہاں کے لوگوں نے اُسے بادشاہ بنا لیا کیونکہ زیئس کی ندائے غیبی نے اُنھیں ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ نئے بادشاہ نے اپنی بیل گاڑی دیوتا کو بھینٹ کر دی۔ تب ایک اور ندائے غیبی آئی کہ بیل گاڑی جس گرہ کے ساتھ کھمبے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، اُسے کھولنے والا شخص سارے ایشیا پر حکومت کرے گا۔ 333 قبل مسیح میں سکندر وہاں پہنچا اور ایک ہی وار سے گورڈیئن گرہ کو کاٹ ڈالا۔
آپ اِس کو ایک اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں اور چاہیں تو اتفاق کو الوہی قرار دے کر اُس کی ہیبت کے آگے سربسجود بھی ہو سکتے ہیں۔ نامعلوم کو پوجنا بہت آسان ہے، بلکہ معلوم کو پوجا ہی نہیں جا سکتا۔ معلوم کو آپ بیان کرتے ہیں، اپنے تجربے کا حصہ بناتے ہیں۔ میرے خیال میں روشن خیالی کا یہ کام ہے کہ نامعلوم کی سلطنت کو آہستہ آہستہ فتح کرنے میں اپنے حصہ ڈالا جائے۔ کبھی زیئس سیارے پر رہتا تھا، سپنوزا نے اُسے نظامِ شمسی سے باہر کر دیا، پھر وہ ہوتے ہوتے اب بلیک ہول سے پرے جا بیٹھا ہے۔
کائنات میں نامعلوم ہی غالب ہے، اس لیے کھوجنے اور جاننے کی کاوش اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں (یعنی ہماری ’’روشن خیالی‘‘ میں اِس بات پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے کہ چیزوں کے پیٹرنز یا نقوش دریافت کیے جائیں۔ روشن خیالی کے کچھ رانگ نمبرز کا ذکر دو روز قبل کیا تھا، یہاں چند دیگر کا کر دیتا ہوں۔ غلطی سے اور انجانے میں ہم قوم پرستوں کو بھی روشن خیال سمجھ بیٹھتے ہیں، حالانکہ وہ روایت پرست ہوتے ہیں، اور روایت پرستی ہی رجعت پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اِن قوم پرستوں کی نظر میں وہ اِس کائنات کا محور ہیں، تہذیب کا آغاز اُنھی کے علاقے یا صوبے سے ہوا، اُن کے کلاسیکی شعرا کا کلام الہامی ہے، اور اُن کا کلچر باقی تمام کلچرز سے زیادہ اور قابلِ فخر ہے۔ یوں یہ روشن خیالی نفرت پر مبنی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ روشن خیالات کے لیے اپنے اندر سے یہ تمام دھبے دور کرنا ہوں گے۔ وولٹیئر جٹ نہیں تھا، نہ ہی جان لاک ارائیں تھا۔ ہیگل یا مارکس کو کشمیری کہنا کیسا لگتا؟ تو پھر ہم خود کو کیسے کہیں؟ یہ وہ سیکھے ہوئے رویے اور اسباق اور تعصبات ہیں جو ہماری جڑوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔ عورت کے بارے میں تصورات بھی اِسی کا شاخسانہ ہیں۔ ہم یقیناً ایک دم تو سب کچھ ادھیڑ کر نہیں پھینک سکتے، لیکن unlearn کرنے کا آغاز تو کیا ہی جا سکتا ہے، جو کسی ایک نہیں بلکہ متعدد اوزاروں سے ہی ممکن ہے۔ ہمارے لیے یہی روشن خیالی ہے۔ بہت سی لگائی گئی گرہیں ایک وار کی منتظر ہیں، بشرطیکہ ہم میں ہمت اور فہم ہو۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply