ڈائیٹریخ بون ہوفر کی تحریر ’’دس برس بعد‘‘ محض ایک خط نہیں بلکہ تاریخ کے اندھیروں میں جلتی ہوئی وہ شمع ہے جس کی روشنی آج بھی ضمیرِ انسانی کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ یہ خط اُس نے جیل سے لکھا،ایسے وقت میں جب ہٹلر کی خونی آمریت پورے یورپ پر سایہ فگن تھی، اور سچ بولنے والے حلق کاٹ دیے جاتے تھے۔ بون ہوفر ان لوگوں میں شامل تھا جو ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں اسے نازی حکومت نے گرفتار کیا، قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا، اور آخرکار 9 اپریل 1945 کو Flossenbürg کے اذیت ناک کیمپ میں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔
اس پر الزام تھا کہ وہ ہٹلر کے قتل کی سازش میں شریک تھا۔ایک مشہور مگر ناکام بغاوت(Stauffenberg Plot) جو 20 جولائی 1944 کے روز پیش آئی اور ناکام ہوئی، جس کا مقصد ظالم کو سرنگوں کرنا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ اتحادی طاقتوں کے ساتھ خفیہ رابطے میں ہے۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد بون ہوفر کی پرانی فائلیں دوبارہ کھولی گئیں، اور نئے شواہد کی روشنی میں اُن پر ’’ریاست سے غداری‘‘ کا مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی گئی۔
بونہوفر کی اصل ’’خطا‘‘ یہ تھی کہ وہ اپنی روح کی صداقت پر سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک پادری تھا، مگر محض منبر کا آدمی نہیں تھا۔وہ کلیسا کی خاموشی کے خلاف اٹھنے والی پکار بن گیا۔ اُس نے ایمان کو صرف عبادت گاہوں میں بند کرکے رکھنے سے انکار کر دیا اور اُسے میدانِ عمل میں لے آیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وہ ایک دینی اور فکری رہنما سے ایک انقلابی شہید میں ڈھل گیا۔
ا س کا خط ’’دس برس بعد‘‘ اسی بغاوتِ ضمیر کی آواز ہے۔ یہ خط بون ہوفر نے 1942 میں اپنے چند مخلص دوستوں کو لکھا۔اس خط میں وہ نہ شکوہ کرتا ہے، نہ شکایت، بلکہ خاموشی سے ہمیں ایک ایسا آئینہ دکھاتا ہے جس میں ہم اپنے عہد کے چہرے کو پہچان سکتے ہیں۔ اس کا مرکزی استدلال ایک چونکا دینے والا نکتہ ہے: ’’انسانیت کو سب سے بڑا خطرہ جہالت سے نہیں، بلکہ بیوقوفی سے ہے‘‘—ایسی بیوقوفی جو دلیل کو رد کر دیتی ہے، سچائی کا مذاق اڑاتی ہے، اور ظالموں کے لیے جواز مہیا کرتی ہے۔ بون ہوفر اسے Theory of Stupidity کے نام سے بیان کرتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ظلم صرف ان ظالموں کے ہاتھوں نہیں پھیلتا جو بندوق بردار ہیں، بلکہ اُن بےحس تماشائیوں کے ہاتھوں پھیلتاہے جن کی خاموشی ظلم کا خاموش سہارا بن جاتی ہے۔ جب پورا سماج جھوٹ کے تانے بانے میں الجھ جائے، تب سچ بولنے والے کو باغی، دیوانہ یا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بونہوفر یاد دلاتا ہے کہ سچ بولنے کی جرأت اگر نہ ہو تو خاموشی خود ایک جرم بن جاتی ہے۔
اس خط کی سب سے بڑی طاقت اس کی آواز نہیں، اس کا وقار ہے۔ بون ہوفر چیخ کر کچھ نہیں کہتا—اس کے الفاظ نرم ہیں، مگر لہجے میں صداقت کی وہ گونج ہے جو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ وہ ہمیں للکارتا نہیں، ہمیں جگاتا ہے۔ ہمیں بتاتا ہے کہ ضمیر کی آنکھ بند کرنا خود فریبی ہے، اور فریب کے اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت وہ ہے جو انسان اپنے باطن سے شروع کرے۔ یوں گویا ’’دس برس بعد‘‘ بون ہوفر کا ایک مکاشفہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں