ریاست غلطیاں کِیا کرتی ہے،بعض اوقات یہ غلطیاں اجتماعی فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور بسا اوقات انفرادی، ادارہ جاتی یا گروہی غلط فیصلوں کا اور ریاست کی غلطیوں کا خمیازہ دہائیوں اور صدیوں پہ مشتمل اور انتہائی بھیانک ہُوا کرتا ہے،تاہم جب ریاست غلطیاں سدھارنے لگے تو اس عمل کی ستائش کی جانی چاہیے۔
مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا بہت سے عوامل کا نتیجہ تھا، جن میں سے ایک اہم عامل “ریاستی کم عقلی” بھی تھی۔
موجودہ حکومت پہ جہاں بے شمار آئینی و جمہوری پہلو کے اعتراضات کیے جاتے ہیں، جن میں سے اکثر اعتراضات بالکل درست ہیں، اور اُن پہ شدومد سے بات ہونی چاہیے، وہیں ایک عمل ایسا بھی ہے جس کی ستائش بھی کی جانی چاہیے۔
گزشتہ برس اگست میں شیخ حسینہ واجد کی بنگلہ دیشی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان نے جس تیزی سے موقع کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات کو نئی جہت دی ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے، اس معاملے میں خود بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکمران ایڈمنسٹریشن بھی تحسین کی مستحق ہے کیونکہ یہ معاملہ دو طرفہ رہا ہے۔
دونوں اطراف کے چیف ایگزیکٹوز کی دو دفعہ بیرون ملک ملاقات ہو چکی ہے جبکہ کئی دہائیوں کے بعد پاکستان کا پہلا تجارتی بحری جہاز بنگلہ دیش میں لنگر انداز ہو چکا ہے اور تجارتی روابط نا صرف یہ کہ دوبارہ بحال ہو چکے ہیں بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں دو ممالک کے درمیان تعلقات کی معراج دفاعی تعلقات اور مشترکہ فوجی مشکوں اور دفاعی انٹیلیجنس تعلقات کو سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں بنگلہ دیش کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم جنرل کی پاکستان آمد اور پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت کے ساتھ اہم میٹنگز اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی تیزی سے نا صرف بہتر ہو رہے ہیں بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں. چند سال قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بنگلہ دیشی فوج کا اہم ترین جرنیل پاکستان آئے گا، جی ایچ کیو جائے گا اور پاکستانی جرنیلوں سے اس کی خوشگوار ملاقات ہوگی اور سٹریٹیجک معاملات پہ تبادلہ خیال ہوگا،یہ بہت بڑی پیش رفت تھی جس پہ میڈیا میں بہت کم بات ہوئی ہے۔
بھارت میں تو یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا ہے اور اس حوالے سے مودی کی کچن کیبنٹ کی ایک میٹنگ کا احوال بھی خبروں کی زینت بنا، جس میں سٹیٹ منسٹر نے یہ کہا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے کریڈیبل اطلاعات موجود ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی نے بنگلہ دیشی فوج کو بھرپور مدد فراہم کی ہے۔ یہ دعویٰ درست ہو یا نہ ہو، تاہم بھارت کی پریشانی کا عکاس ضرور ہے۔
آنے والے چند دنوں میں پاکستانی وزیر خارجہ بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے جو یقیناً انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ شنید ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون خصوصاًفوجی ٹریننگ اور ہتھیاروں کی بنگلہ دیش کی جانب سے خریداری کا معاملہ بھی آگے بڑھے گا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے تعلقات انتہائی خوش آئند ہیں اور ہمیں اس ریاستی اور حکومتی پالیسی کی بھرپور ستائش کرنی چاہیے۔
جو لوگ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد دو قومی نظریے کو سمندر برد کہتے اور سمجھتے تھے انہیں آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے بڑھتے تعلقات پہ بھارتی پروپیگنڈے، واویلے اور چیخ و پکار کو غور سے دیکھنا اور سننا چاہیے، جس میں بہت سے اسباق موجود ہیں اور اس پروپیگنڈے اور چیخ و پکار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا بھارت کے منصوبے کے تحت ہوا تھا۔
چند ہفتے قبل بنگلہ دیشی عبوری چیف ایگزیکٹو کا چین میں بھارت کی سات مشرقی ریاستوں کے متعلق بیان، چِجن نیک chicken Neck کی طرف اشارہ اور اس پہ بھارت کا حکومتی اور میڈیائی شورو غوغا اور اس کے فوراً بعد پاکستانی وزیر خارجہ کا بنگلہ دیش کا متوقع دورہ ایک سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔خارجہ امور پر نظر رکھنے والے احباب کے لیے یہ معاملہ انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔

اللہ کرے حکومت اور ریاست اسی طرح اپنی دیگر اغلاط بھی سدھارتی جائے اور اپنے غلط فیصلے رول بیک کرتی چلی جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں