شلوار سے آگے جہاں اور بھی ہیں/چوہدری عامر عباس

ہمارے ہاں سوچنے کی اک عادت ہے اور وہ بھی مخصوص زاویے سے، یعنی شلوار کے آزار بند سے نیچے کی طرف۔ جیسے قوم نے اجتماعی طور پر طے کر لیا ہو کہ دماغ کا استعمال فقط پورن موویز، مردانہ کمزوری اور موبائل گیمز تک محدود رکھا جائے۔ ہر محفل، ہر دیوار، ہر لاری اڈہ، اور ہر فیس بک گروپ بس ایک ہی بات پہ اٹکا ہے: مردانہ کمزوری اور اسکا علاج۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پورن موویز دیکھنے والے ممالک میں پاکستان پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے ہے۔

اب مردانگی کا مفہوم بھی کچھ ایسا تشکیل پایا ہے کہ اگر بندہ چار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہانپ جائے تو کوئی پروا نہیں، لیکن اگر سانڈھے کا تیل نہ ملا تو موت کے آثار نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے جسم میں خون نہیں صرف “جنسی طاقت” کی تمنا دوڑ رہی ہو۔
لاری اڈے پر مداری پہلے بندر کو قلابازیاں کرواتا ہے پھر مجمع کو دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اعلان کرتا ہے:
“بھائیو! اگر رات کو بجلی نہیں آی، تو یہ نسخہ آپ کے لیے ہے۔”
اب بندہ سوچے کہ روشنی کی بات ہو رہی ہے یا کچھ اور؟ اور پھر وہ “سانڈھے کے تیل” کا تعارف ایسے کرواتا ہے جیسے یہ قوم کی آخری امید ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قائداعظم نے بھی آزادی اسی لیے دلوائی تھی کہ ہر بندہ بے فکر ہو کر “مضبوط” ہو سکے۔

دوسری جانب عجب حال یہ ہے کہ بازار میں ایک باپردہ عورت اپنے کام سے جا رہی ہوتی ہے اور آس پاس کے کئی حضرات کو ایسی “کھجلی” لاحق ہو جاتی ہے جیسے کسی نے ان کی شلوار میں چمونا چھوڑ دیا ہو۔ ان کی نگاہیں، زبانیں اور دماغ ایک ہی لفظ میں قید ہو جاتے ہیں: “فطرت”۔

جب روکو تو دلیل یہ ہوتی ہے: “او جی! مرد ہے، فطری جذبہ ہے۔”
گویا مرد کا جذباتی ریموٹ کنٹرول سڑک پر چلنے والی عورتوں کے جسموں سے جُڑا ہوتا ہے اور “فطرت” کا یہ چینل 24/7 چلتا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ یہی “فطرت” اس وقت کیوں بے بس ہو جاتی ہے جب وہی مرد اپنی بہن یا بیٹی کو دیکھتا ہے؟ کیا وہاں یہ فطرت خصی ہو جاتی ہے؟ پس ثابت ہوا جناب کہ یہ فطرت نہیں، یہ نری منافقت ہے. وہی منافقت جو تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر حیوانیت کے گناہوں کو جواز دیتی ہے۔

جنسی خواہشات انسان کی فطرت کا حصہ ہیں، انکار نہیں، مگر جب معاشرے کی ساری گفتگو، اشتہارات، اور دلچسپیوں کا مرکز صرف یہی خواہش بن جائے تو پھر نہ محبت سلامت رہتی ہے نہ عزت۔ نہ عورت کو ماں، بہن، یا بیٹی سمجھا جاتا ہے نہ مرد کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ سب فقط گوشت کے لوتھڑوں کی مانند بازار میں گھومتے نظر آتے ہیں۔

julia rana solicitors london

وقت آ چکا ہے کہ ہم “شلوار سے آگے کا شعور” پیدا کریں۔ جس معاشرے کی ساری توجہ صرف اس بات پر ہو کہ “کیا میں مرد ہوں یا نہیں؟” مردانگی جسم سے نہیں، کردار سے ثابت ہوتی ہے۔ سانڈھے کا تیل نہیں، سچائی، غیرت اور تہذیب وہ نسخے ہیں جو معاشرے کو توانا کرتے ہیں۔
ورنہ آپ بس تماشا ہی دیکھتے رہیے
مداری، بندر، تیل، اور نعرہ:
“طاقت کا خزانہ۔۔بس دو بوند روزانہ

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply