اہل غزہ امام مہدی کا انتظارکریں/شہزاداحمدرضی

غزہ کے مسئلے پر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے اورمزید لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ہر کوئی اپنے طور پر اس مسئلے پر سیر حاصل گفتگوکررہا ہے۔اہل غزہ کی مشکلات کا ذکر بھی ہورہا ہے اور ان پر گزرنے والی قیامت کا احوال بھی ہر ایک کی زبان پر ہے۔
یہ کیسا عجیب مسئلہ ہے کہ بے بسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ گومایوسی گناہ ہے لیکن امید کی کوئی تو کرن ہو جو دلوں کو مطمئن کرسکے۔ اس مسئلے نے بہت کچھ واضح کردیا ہے۔ مغرب کی عوام کا رویہ چاہے کچھ بھی ہو۔ان میں سے بہت سارے اہل غزہ کے مصائب پر پریشان بھی ہوں لیکن ان کا مقتدرطبقے کی دوڑ صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے۔فرنگ ہی نہیں بلکہ پورے مغرب کی رگ ِجان پنجہء یہود میں ہے۔ ان کے پالیسی میکرز کسی صورت صہیونیوں کی او ر ان کے مربی انکل سام کی ناراضی افورڈ نہیں کرسکتے۔دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ ہمیں مذہبی جنونی ہونے کا طعنہ دینے والے خود کس قدر انتہاپسند ہیں۔ اسرائیلی ریاست دنیا کی واحد ریاست ہے جو مذہب کے نام پر شہریت دیتی ہے۔ اس کے گھناؤنے عزائم پر مذہب کا لبادہ عیاں ہے لیکن وہ مغرب کو نظر نہیں آتے۔ اسے کوئی مذہبی جنونی ہونے کا طعنہ دینے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ مزید براں مغرب کی طرف سے اسرائیل کی بے جا اور غیر مشروط حمایت کیا یہ ظاہر نہیں کرتی کہ مسلمانوں سے ان کا بغض صدیاں گزرنے کے باوجود جوں کا توں ہے؟
دوسری طرف ہماری اپنی حالت شرمناک ہے۔ ہم مغرب کو کیا طعنہ دیں، ہم تو ان سے بھی اگے بڑھ چکے ہیں۔ ہمارے پاس او۔آئی۔سی نام کی ایک(گھسی پٹی) تنظیم ہے۔عرب لیگ کے نام سے بھی ایک تنظیم ہے۔ بڑے بڑے جبے پہنے اربوں کھربوں ڈالرز کے اثاثوں والے موٹے موٹے شیخ ہیں۔تیل کے ذخائر ہیں،روایتی و غیر روایتی اسلحہ ہے۔ بہت کچھ ہے۔ بس غیرت نہیں ہے۔ حمیت نہیں ہے۔ بقول اقبال
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
مسلمانوں کی گردنوں پرمستقل سوار مخصوص اہل اقتدار(خاندان)محض مذمتی قراردادیں پاس کرسکتے ہیں۔ مذمتی قراردادیں پاس کرنا محض نمائشی اقدام ہیں۔ حقیقت میں یہ موٹے موٹے شیخ خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ حماس جیسی مزاحمتی گروپوں کا خاتمہ ہواورفلسطین کا مسئلہ (اسرائیل کی منشاء کے مطابق) مستقل طورپر حل ہو تاکہ ان کی جان چھوٹے اور یہ جی بھر کر انکل سام کی خدمت کرکے اپنے پشتینی اقتدار کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرسکیں۔
جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے ان کو ہمیشہ یہی بتایا گیا ہے کہ کوشش کرنا بیکار ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کافروں کے کرنے کے کام ہیں۔ آپ سوشل سائنسز پڑھیں، پرانے آباؤ اجداد کے کارناموں پر محض فخرکریں۔ خود کچھ نہ کریں۔ جو کچھ بھی کریں گے وہ امام مہدی کریں گے۔ امام مہدی آئیں گے تو وہ سب ٹھیک کردیں گے وغیرہ وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ جن کے کارناموں پر ہم فخر کرتے ہیں کیا ان کو علم نہیں تھا کہ امام مہدی تشریف لائیں گے؟ پھر وہ کیوں اس چیز پر قناعت کرکے نہیں بیٹھ گئے؟انہوں نے کیوں دریاؤں میں گھوڑے دوڑادئیے؟افسوس کہ ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی کو دیس نکالادے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری!
بہرحال اہل غزہ سے گزارش ہے کہ وہ امام مہدی کا انتظار کریں۔ہمارے دل ان پر گزرنے والی قیامت پر روز خون کے آنسو روتا ہے لیکن ہم ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ہم بھی اتنے ہی بے بس ہیں جتنے وہ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply