نہ جانے کیوں آج مجھے لودھراں کی وہ مظلوم خاتون یاد آرہی ہے جو اپنے شوہر اور دیگر اہلخانہ کیساتھ کراچی گئی۔اسے مزار قائد کے سیکورٹی منیجر نے موقع پاکر اغواکرلیا اور اپنے دفتر لے جاکر بے حرمت کر دیا۔ معاملہ مزار قائد کا نہ ہوتا تو شاید دب جاتا مگر بابائے قوم کے مزار پر ایسی گھناؤنی حرکت پر پولیس بھی متحرک ہو گئی۔ ملزم پکڑے گئے ان کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔جس طرح آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا اسی طرح دس برس قبل پیش آنے والے واقعہ سے متعلق بھی استغاثہ کا یہی خیال تھا لیکن ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج شرقی جناب ندیم احمد خان نے یہ کہتے ہوئے ملزموں کو باعزت بری کر دیا کہ عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم نہیں کرتی اگر مدعیہ کے پاس تذکیۃالشہود کے عین مطابق چار گوا ہ موجود ہیں تو پیش کیا جائے ۔جج صاحب نے اپنے اس فیصلے کی تائید میں نہ صرف قرآن کی ایک آیت پڑھی بلکہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا حوالہ بھی دیا ۔
15مارچ 2008ء کو سرزد ہونے والے اس جرم کا فیصلہ اپریل 2013ء میں سنایا گیا جبکہ تین ماہ بعد جولائی 2013ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ ڈی این اے کو زنابالجبر کے مقدمات میں بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔اس وقت سے لیکر اب تک اس نوعیت کے سینکڑوں مقدمات میں ڈی این اے کو بطور شہادت مسترد کیا جا چکا ہے اور بیشمار جنسی درندے باعزت بری ہو کر پھر سے شکار کرتے پھرتے ہیں۔

اگر زینب کے ساتھ وحشت و درندگی کا یہ کھیل میڈیا میں اجاگر نہ ہوتا اور پورے ملک میں بھونچال نہ آتا تو زینب کے اہل خانہ سے بھی یہی کہا جاتا کہ شریعت کے عین مطابق چارگواہ پیش کرو جنہوں نے عین اس حالت میں یہ فعل وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہو۔ عین ممکن ہے اب عوامی دباؤ کے پیش نظر عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے حدود آرڈیننس پر اجتہاد کی راہ اپنائی جائےاور ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم کرنے کا قانون بنایا جائے؟۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں