جس طرح پاکستان میں اکثر ڈاکٹر لڑکیاں شادی کے بعد سسرال والوں اور شوہر
کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر پریکٹس چھوڑ دیتی ہیں اور گھر بیٹھ جاتی
ہیں۔اسی طرح ادبی جرائدمیں تواتر سے افسانے لکھنے والی کئی لڑکیوں کو
بھی ہم نے شادی کے بعد ادبی منظر سے غائب ہوتے دیکھا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں
گے آخر وہ لکھنا کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟ لکھنے لکھانے کا کام تو گھر بیٹھے
ہوسکتاہے۔اس سوال کا جواب عفت نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں دیا ہے جو
نجانے کتنی لڑکیوں پر صادق آتا ہے۔لکھتی ہیں: ”کئی افسانے ذہن میں بنے،
مگر قلم کی نوک پر آنے سے پہلے ہی،کوئی واشنگ مشین میں دھلا، کوئی خیال
جھاڑو دیتے سمٹا، کوئی کہانی روٹی بناتے توے پر رہ گئی۔“تو صاحب،اس سے
بہتر وضاحت کوئی ہو نہیں سکتی۔
میرے لئے عفت کے افسانوں کی کتاب ”ردی“کے بارے میں کچھ لکھنا مشکل اس لئے
ہے کہ میں ابھی تک ان کی آپ بیتی ”دیپ جلتے رہے“کے سحر سے نہیں نکل پائی
عفت کی کتاب کا پہلا افسانہ ہی قاری کو چونکا دیتا ہے۔یہ افسانہ ٹرانس
جینڈرز کے بارے میں ہے جن پر اردو میں بہت کم ادیبوں نے لکھا ہے۔دوسرا
افسانہ’ردی‘ ہے اور اس کی اہمیت یوں ہے کہ یہ پہلا افسانہ ہے جو شادی کے
بعد پچیس سال پہلے انہوں نے لکھا۔شاید اسی لئے ان کے لئے یہ افسانہ اتنا
اہم ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام بھی یہی رکھا ہے۔
ان کی کہانی رضیہ کا ’کتا‘میں کتا تو تھا ہی نہیں لیکن ایک عورت کی
جسمانی خواہش اور ضرورت اور اس طبقاتی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا
مردضرور تھا۔”بیل، بکرا اور ماں“ میں بھی اس طبقاتی معاشرے میں امیر و
غریب کا فرق اور مادیت پسندی کی بنا پر اختیار کئے جانے والے رویوں کی
عکاسی کی گئی ہے۔
”اورنج ڈبہ“صرف ایک کوڑا یا کچرا اٹھانے والے بچے کی کہانی نہیں۔اس کے
پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کی لمبی داستان ہے۔جس کا آج تک
خاتمہ نہیں ہو سکا۔
”اس کی چتا کو آگ لگی،نہ میں اسے دفن کر سکا“دونوجوان دلوں کی کہانی جن
کی محبت کی راہ میں مذہب کی دیوار کھڑی کر دی گئی۔
’دھتکار‘ایک کتے کی کہانی جو ایک بیرسٹر کے آسائشوں بھرے گھر سے شروع ہو
کر ایک بوڑھے کوڑھی کی موت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔
’میٹھا پراٹھا‘ ماں اور بیٹے کی محبت کی کہانی جو اختتام پر بیٹی اور باپ
کی محبت کی شکل میں سامنے آتی ہے۔
’کوکھ کا ادل بدل‘بہت ہی تکلیف دہ اور رلا دینے والی کہانی ہے۔
’دادل‘ اور ’بریکنگ نیوز‘چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں
اور الیکٹرونک میڈیا کی صورتحال کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں
افسانہ ”انتظار“پڑھ کر میں نے سوچا’یا اللہ، کوئی بیوی اپنے شوہر سے اتنی
زیادہ محبت کر سکتی ہے؟ شاید کرتی ہو لیکن اسے احاطہ ء تحریر میں لانا
صرف عفت کے لئے ہی ممکن تھا۔
”تم“تیس سال پہلے بچھڑے ہوئے محبوب کے زندگی کے آخری لمحوں تک انتظار
کرنے کی اداس کر دینے والی کہانی۔
”رواجی خدا“پڑھ کر مجھے ساحر لدھیانوی یاد آ گئے: یہ رسموں، یہ ریتوں، یہ
رواجوں کی دنیا۔یہ انسان کے دشمن سماجوں کی دنیا۔معلوم نہیں یہ صدیوں
پرانے رواج کب ختم ہوں گے۔
”بد رو عشرت اور خوب صورت آئینہ“۔گیس لائٹنگ کی بہترین مثال۔ یہ بھی تشدد
اور زیادتی کی ایک شکل ہے جو ہمارے معاشرے میں زیادہ تر میاں بیوی کے
رشتے میں نظر آتی ہے۔مرد حضرات اپنی بیویوں کو احساس کمتری میں مبتلا
کرنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں، یہانتک کہ عورت اپنے آپ کو سچ مچ کم تر
سمجھنے لگتی ہے۔
”گھٹن“نامی کہانی میں انسانی فطرت کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ یعنی اتنے
مانوس صیاد سے ہو گئے،اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔ساری عمر شوہر کی
بد مزاجی، طعن و تشنیع سن کر زندگی گزارنے والی عورت سے بڑھاپے میں شوہر
کی کایا پلٹ یعنی خوش اخلاقی برداشت نہیں ہوتی اور وہ اسے اجنبی لگنے
لگتا ہے، ایسا اجنبی جس کے ساتھ وہ زندگی نہیں گزار سکتی۔ماہر نفسیات اسے
سادیت پسندی کہیں گے لیکن ہوتا ایسے ہی ہے۔
”بیچاری ماں، گستاخ اکبر اور محب اللہ“ پڑھ کر پتا نہیں میں صحیح سمجھی
یا نہیں لیکن بیچاری ماں تو ہمارا پاکستان ہی ہے جو انتہا پسندوں اور
دہشت گردوں میں گھرا ہوا ہے۔اب عفت ہی بتائیں گی بیچاری ماں کا اتا پتا۔
”آئینہ“ خوش حال مغربی ممالک جا کر آباد ہونے والے پاکستانی والدین کے
دکھ دردکی کہانی ہے۔
”کیتھرین، کلثوم اور جاء نماز“کے بارے میں کیا کہوں کہ یہ کہانی مذہب کا
نام لینے والے مگر مذہب کی روح سے یکسر بے گانہ لوگوں کے منہ پر ایک
طمانچہ ہے۔
”کہانی کا رزق“ میں بہت ہی تکلیف دہ حقیقتوں کو بہت جرات اور سچائی کے
ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
”چار بج کر نو منٹ“ماں بیٹے کی محبت کی رلا دینے والی کہانی۔اور اس سے
بھی زیادہ رلا دینے والی کہانی”دادی پھر سو گئیں“ہے۔ریٹائر منٹ کے بعد یا
ویسے بھی بڑھاپے میں اپنے بے مصرف اور غیر اہم ہو جانے کا احساس کتنا
اذیت دہ ہوتا ہے، یہ عفت نے سمجھایا بھی ہے اور ہمیں رلایا بھی ہے۔میری
رائے میں جو کہانیاں پڑھنے والے کو رلا دیں، ان کا شمار یقینا ادب عالیہ
میں کیا جانا چاہئیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں