مارچ در مارچ / محمد ذیشان بٹ

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام کے
جذبات کو اکثر مفاد پرست عناصر اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ایک عام انسان جب کسی مظلوم کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اُس کے خلوص کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتجاجوں اور مارچوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اور یہ روایت وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ماہِ مارچ میں تو ہر سال سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی اپنی مہمات کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں، اور اس سال تو یہ سلسلہ اپریل میں بھی جاری ہے۔ یہ احتجاج کبھی مہنگائی کے خلاف ہوتے ہیں، کبھی حکومت کے خلاف، کبھی مذہبی معاملات پر اور کبھی کسی بین الاقوامی مظلوم قوم کے حق میں، جیسے کہ فلسطین۔

فلسطین کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت اور امریکی پشت پناہی کے سائے میں فلسطینی عوام ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ان کی زمینیں چھینی گئیں، ان کے گھر اجاڑے گئے، ان کے بچوں کو شہید کیا گیا، مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اسرائیل کو مظلوم اور امریکہ کو انصاف پسند سمجھتا ہے تو یقیناً وہ جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا ہے۔ دنیا آج عملاً دو قوموں میں تقسیم ہو چکی ہے: ایک طرف کفر ہے، جو متحد ہے، اور دوسری طرف مسلمان، جو آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ کافر اپنی وحدت سے طاقت حاصل کرتے ہیں جبکہ مسلمان اپنی تقسیم سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں، اور یہی بات دشمن بخوبی جانتا ہے، اسی سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ہمارے ملک کے حکمران اپنی کرسی کے خمار میں اس قدر مدہوش ہیں کہ انہیں اپنی عوام، اپنے دین، اور مظلوم مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کو طول دینا اور اپنی کرسی کو بچانا ہے۔ جہاں دنیا بھر میں فلسطین کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، وہاں پاکستان میں یہ مسئلہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ سیاسی اور مذہبی رہنما بھی اس حساس مسئلے پر اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ عوام کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں، تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف ویڈیوز اور بیانات کا طوفان کھڑا کرتے ہیں۔

ہمارے وہ لبرل طبقے، جنہیں ہمارے استاد محترم حضرت مولانا ابو حفص طاہر کلیم صاحب بجا طور پر “کالے انگریز” کہتے ہیں، وہ تو فلسطین کے حق میں بائیکاٹ کے ہی خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا پسماندگی ہے، اور وہ ہمیشہ “سب سے پہلے پاکستان” کا بے سروپا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی ترجیح نہ دین ہے، نہ مظلوم مسلمان، بلکہ اپنی آسائشیں اور مغربی طرزِ زندگی ہے۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ بھی بٹ چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک طرف بریلوی مکتبِ فکر کے مفتی منیب الرحمن کی فلسطین کے حق میں فتویٰ ویڈیو منظرِ عام پر آئی، تو دوسری طرف دیوبندی مکتبِ فکر کے مفتی تقی عثمانی کی ویڈیو کو مشتہر کیا گیا۔ اس کے بعد کراچی میں جمعیت علماء اسلام نے اپنا احتجاج کیا، پھر جماعت اسلامی کی باری آئی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی میدان سنبھالا، اور اب تحریک لبیک کے کارکنان بھی احتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان تمام جماعتوں کے پاس سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی ویڈیوز شیئر کرنے کی ہمت نہیں، اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے، تو پھر یہ کس طرح فلسطین کے لیے مخلص ہو سکتے ہیں؟ اگر یہ سب صرف اپنی جماعت کی قیادت کو نمایاں کرنے کے لیے مارچ کر رہے ہیں تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ ایک ایسا احتجاج جو تقسیم ہو، جس میں ہر جھنڈا مختلف ہو، ہر نعرہ جدا ہو، وہ کیا خاک اثر کرے گا؟ ایسے احتجاج سے تو دشمن کو یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان ابھی تک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کر سکے۔

احتجاج تو وہ ہوتا ہے جو قوم کی نمائندگی کرے۔ ایک ایسا مارچ ہونا چاہیے تھا جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، سول سوسائٹی، طلبہ تنظیمیں، خواتین، بزرگ، نوجوان سب شامل ہوتے۔ نہ کوئی جماعتی جھنڈا ہوتا، نہ کوئی مخصوص نعرہ۔ صرف ایک آواز ہوتی: “فلسطین زندہ باد”۔ ایسا احتجاج دنیا کو بتاتا کہ فلسطین لاوارث نہیں ہے، ان کے بھائی اب بھی زندہ ہیں۔ لیکن افسوس، ہمارے ملک میں ہر چیز کو ذاتی مفاد کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں ایک جلسہ دوسرے جلسے کے ساتھ جڑنے کے بجائے اس سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں احتجاج اور مارچ ہمیشہ سے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 1977ء میں نظام مصطفیٰ تحریک ہو، 1983ء کی تحریک بحالی جمہوریت (MRD)، یا 2007ء کی وکلاء تحریک، ان سب کا ایک مقصد تھا: سیاسی تبدیلی۔ 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا ہو یا مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ، ان سب کا مقصد اقتدار پر اثرانداز ہونا تھا۔ لیکن فلسطین کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے، ایک مظلوم قوم کا مقدمہ ہے، جسے سیاسی ہتھکنڈہ بنانا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ بے حسی کی انتہا بھی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اندر اتحاد پیدا کریں۔ صرف فلسطین ہی نہیں، کشمیر، یمن، شام، افغانستان، ہر جگہ مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، اور ہم ابھی تک اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ کس کا احتجاج زیادہ کامیاب تھا۔ اگر ہم واقعی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر کا ظلم ختم کرنا ہوگا، اپنے دل کو صاف کرنا ہوگا، اور صرف ایک مقصد کے لیے متحد ہونا ہوگا۔

julia rana solicitors london

کاش کہ ہم ایک ایسا مارچ نکال سکیں جس میں کوئی فرقہ نہ ہو، کوئی جماعت نہ ہو، صرف اُمت ہو۔ کاش کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ مسلمان جاگ چکا ہے، اور اب مظلوم کی فریاد رائیگاں نہیں جائے گی۔ لیکن جب تک ہم ذاتی مفادات کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے، تب تک نہ فلسطین آزاد ہوگا، نہ ہم خود۔ احتجاج ایک طاقت ہے، مگر وہ طاقت تبھی اثر کرتی ہے جب وہ متحد ہو، منظم ہو، اور خلوصِ نیت سے ہو۔ جب احتجاج، مارچ، جلسے اور جلوس صرف اپنی ذات کی تشہیر کے لیے ہوں تو وہ قوم کی نہیں، صرف شخصیت کی خدمت کرتے ہیں۔ اور شاید یہی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔

Facebook Comments

محمد ذیشان بٹ
I am M. Zeeshan butt Educationist from Rawalpindi writing is my passion Ii am a observe writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply