پاکستان میں پانی کی تقسیم ہمیشہ ایک حساس، پیچیدہ اور جذباتی مسئلہ رہا ہے، جسے مختلف ادوار میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی بار چیلنجوں کا سامنا رہا۔ مگر جو منظرنامہ اس وقت چولستان کی سرزمین پر بن رہا ہے، وہ صرف پانی کے بہاؤ یا نہری ڈھانچے کی تعمیر کا معاملہ نہیں، بلکہ وفاقی اکائیوں کے درمیان اعتماد، انصاف، اور نمائندگی کے بنیادی سوالات پر براہ راست ضرب ہے۔ نہریں نکالنے کے معاملے پر سندھ کی حساسیت اپنی جگہ، مگر اس تمام عمل میں سب سے زیادہ نظرانداز اگر کوئی ہوا ہے تو وہ ہے سرائیکی وسیب — وہ خطہ جو عملاً اس منصوبے کا مرکز ہے، مگر فیصلہ سازی کی میز پر اس کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
حال ہی میں سندھ کے وزیراعلیٰ کی جانب سے چولستان کا دورہ کرنے والی ماہرین کی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماروٹ کے مقام پر تقریباً 4 سے 5 کلومیٹر تک کی نہری پٹی کھودی جا چکی ہے، اور مشینری موقع پر موجود ہے۔ اگرچہ فی الحال کام بند ہے۔ اس دورے سے واضح ہوتا ہے کہ منصوبہ صرف کاغذوں میں موجود نہیں، بلکہ عملی سطح پر اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور اگرچہ سندھ کی ٹیم کو بہت سے سوالوں کے جواب نہیں ملے، مگر زمین کی صفائی، بیڈ کی کھدائی، اور کیمپ کی موجودگی اس امر کا اعلان کر رہے ہیں کہ منصوبہ خاموشی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
یہی وہ خاموشی ہے جو اصل میں سرائیکی وسیب کے لیے سب سے زیادہ گونج دار ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ چولستان میں جس علاقے میں نہریں نکالی جا رہی ہیں، وہ سرائیکی وسیب کی زیریں پٹی میں واقع ہے، مگر اس علاقے کے نمائندوں، کسان تنظیموں، ماہرین آبپاشی، یا مقامی شہری قیادت کو نہ تو اس منصوبے کی پیشگی معلومات فراہم کی گئیں، نہ ان سے مشاورت ہوئی، اور نہ ہی انہیں اس منصوبے کے ثمرات یا اثرات پر کسی فورم پر بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ طرز عمل، سرائیکی وسیب کے اس مستقل استحصال کا تسلسل ہے جو نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور ثقافتی سطح پر بھی مسلسل جاری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حالیہ ملاقات میں اگرچہ کئی امور پر بات ہوئی، جن میں مقامی حکومت کے انتخابات، کسانوں کے مسائل، اور بعض تعلیمی منصوبے شامل تھے، مگر اس تمام بات چیت میں چولستان نہر منصوبے پر کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ البتہ یہ ضرور کہا گیا کہ “پانی کے مسائل پر بات کرنا IRSA کا کام ہے، اور وہی اس کا پلیٹ فارم ہے۔” یہ مؤقف نہ صرف حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے نزدیک سرائیکی خطے کا نقطہ نظر کسی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔
جب سندھی قوم پرست سیاستدان زین شاہ جیسے افراد اس مسئلے پر آواز اٹھاتے ہیں تو یہ توجہ کا مرکز بنتا ہے، مگر خود سرائیکی وسیب کی سیاسی قیادت کی کمزور موجودگی، ان کی آواز کا دب جانا، یا شاید ان کی شمولیت کا موقع نہ دیا جانا، ایک خطرناک آئینہ ہے کہ فیڈریشن کی سوچ آج بھی اقتدار کے محوروں تک محدود ہے، جغرافیائی انصاف کے ادراک سے عاری۔
یہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ چولستان کی زمین صرف پانی کی ترسیل کا راستہ نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور تاریخی حوالہ ہے۔وہ خطہ جہاں زندگی پانی کی بوند کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر اس خطے میں زرعی نہریں نکالی جاتی ہیں تو اس کا براہ راست اثر وہاں کے ماحول، مویشی پالنے والوں، چراگاہوں، اور مقامی زندگی کے دھارے پر پڑے گا۔ مگر کسی بھی دستاویز یا سرکاری بیان میں اس سماجی اور ماحولیاتی اثر کا ذکر تک موجود نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ زمین بےآواز ہے، اور یہاں کے لوگ بے حیثیت۔
یہ سارا تناظر دراصل اس پرانے استعماری طرز حکومت کا مظہر ہے، جس میں فیصلے وہاں کیے جاتے ہیں جہاں طاقت کا ارتکاز ہوتا ہے، اور اُن پر لاگو اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں آوازیں دبائی جا چکی ہوں۔ نہریں نکلیں یا نہ نکلیں، منصوبے مکمل ہوں یا بند، سوال یہ ہے کہ کیا وفاق، اپنے تمام اکائیوں کے ساتھ مساوی سلوک کر رہا ہے؟ کیا چولستان کے باسیوں کی رائے یا تحفظات اتنے ہی اہم سمجھے گئے ہیں جتنے سندھ کے یا لاہور کے؟ یا پھر یہ خطہ صرف “زرعی تجربات” کے لیے ایک خالی کینوس ہے؟
وقت آ چکا ہے کہ سرائیکی وسیب کی سیاسی، سماجی اور علمی قیادت اس خاموشی کو توڑے۔ چولستان کے نام پر جو کارپوریٹ فارمنگ، “گرین پاکستان انیشی ایٹو”، یا نہری منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، ان پر صوبائی یا وفاقی سطح پر نہیں، بلکہ مقامی سطح پر بحث ہونی چاہیے۔ ان منصوبوں میں مقامی کمیونٹیز کی شمولیت، رضامندی، اور ان کے ماحولیاتی و معاشی تحفظات کی ضمانت دی جائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف سرائیکی وسیب میں بداعتمادی بڑھے گی، بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی جو کمزوریاں پہلے ہی سطح پر موجود ہیں، وہ مزید گہری اور خطرناک شکل اختیار کر لیں گی۔ یاد رکھیے، پانی کی تقسیم کا مسئلہ صرف معیشت کا مسئلہ نہیں، یہ وجود، وقار، اور وفاق کا مسئلہ ہے۔ اور اگر کوئی خطہ مسلسل نظرانداز ہوتا رہے، تو ایک دن وہ اپنے حصے کے سناٹے سے انصاف مانگے گا—اور وہ سناٹا، سب کو سنائی دے گا۔
چولستان میں نہری منصوبوں کے پس پردہ اصل معاملہ محض آبی ترسیل یا زرعی ترقی کا نہیں، بلکہ زمین کے مالکانے حقوق، معاشی اجارہ داری، اور ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سرائیکی وسیب کے تاریخی استحصال کو نئی شکل میں دہرایا جا رہا ہے—اس بار سبز انقلاب یا “گرین پاکستان انیشی ایٹو” جیسے خوشنما نعروں کے پردے میں۔
یہ کوئی راز نہیں رہا کہ چولستان میں جن نئی نہروں کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان کے ذریعے آباد کی جانے والی زمینیں درحقیقت ان قبائلی، مقامی یا خانہ بدوش خاندانوں کے لیے نہیں رکھی گئیں جنہوں نے صدیوں سے اس بنجر دھرتی میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کیے ہیں۔ بلکہ ان زمینوں کو ‘کارپوریٹ فارمنگ’ کے نام پر منظم انداز سے مخصوص طبقات کے حوالے کیا جا رہا ہے—جن میں فوجی و سول افسر شاہی، غیر حاضر سرمایہ دار، بااثر سیاسی خاندان اور طاقتور کاروباری کارٹیلز شامل ہیں۔
یہ زمینیں سرائیکی وسیب کے اصل باسیوں کے لیے روزگار یا ترقی کا وسیلہ نہیں بن رہیں، بلکہ ان کے لیے مزید بیگانگی، بے دخلی اور محرومی کی علامت بنتی جا رہی ہیں۔ چولستان کی زمین پر ریاستی تحویل اور کارپوریٹ قبضے کا یہ ماڈل ایک نیا “نوآبادیاتی دھارا” تشکیل دے رہا ہے، جس میں فیصلہ سازی، ملکیت اور فائدہ۔۔تینوں اُن ہاتھوں میں سونپے جا رہے ہیں جو یہاں کے تاریخی، ثقافتی اور ماحولیاتی سیاق سے یکسر نابلد ہیں۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان زمینوں پر دیہی باشندوں کو ‘نگہبان’ کے طور پر تو رکھا جا سکتا ہے، مگر ‘مالک’ کی حیثیت دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ایسے کئی شواہد موجود ہیں کہ مقامی خانہ بدوشوں اور چرواہوں کی چراگاہوں کو غیر اعلانیہ بند کیا گیا ہے تاکہ نئے منصوبوں کی زمین کو “کمرشلائز” کیا جا سکے۔ مقامی سطح پر اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو اکثر ریاستی دباؤ، پولیس مقدمات یا طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ زمینیں، جنہیں برسوں تک حکومت نے ‘بنجر’ قرار دے کر نظرانداز کیا، اب جب جدید آبپاشی نظام کی بدولت قابلِ کاشت بننے جا رہی ہیں تو ان کا حق صرف ان طبقات کو دیا جا رہا ہے جو طاقت کے دھارے میں بیٹھے ہیں۔ فوجی افسران کو ‘ریٹائرمنٹ پیکج’ کے طور پر پلاٹ الاٹ کرنا، سول بیوروکریسی کے افسران کو ‘انعامی اسکیم’ کے طور پر زمین دینا، اور بڑے کاروباری گروہوں کو ‘زرعی انقلاب’ کے نام پر ہزاروں ایکڑ تفویض کرنا۔یہ سب اس عمل کا حصہ ہے جسے زمین کی پُرامن لوٹ مار کہا جا سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن زمینوں کو کارپوریٹ کاشت کاری کے لیے مخصوص کیا جا رہا ہے، ان میں کئی ایسی بھی ہیں جو تاریخی طور پر مقامی قبائل اور گاؤں والوں کی مشترکہ ملکیت یا روایتی استعمال میں رہی ہیں۔ ان کے ساتھ نہ کوئی مشاورت کی گئی، نہ معاوضہ دیا گیا، نہ متبادل زمین فراہم کی گئی۔ یہ طرز عمل بین الاقوامی انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف، اور مقامی اختیار کی بنیادی اقدار کے بھی خلاف ہے۔
چولستان کی زمین کو سرمایہ دارانہ استحصال کا تجربہ گاہ بنا کر ایک ایسا ماڈل قائم کیا جا رہا ہے جہاں پیداوار مقامی محنت سے ہوگی، مگر منافع غیرمقامی جیبوں میں جائے گا۔ اس ماڈل کی نہ صرف اخلاقی حیثیت مشکوک ہے، بلکہ معاشی طور پر بھی یہ ناپائیدار ہے۔ کیونکہ جب زمین پر مقامی جڑوں کے بغیر صرف سرمایہ کی بنیاد پر قبضہ ہوتا ہے، تو وہ زمین صرف زمین نہیں رہتی۔وہ بے سکون، غیر محفوظ اور استحصال کا میدان بن جاتی ہے۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس تمام عمل میں شفافیت کا شدید فقدان ہے۔ زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق کوئی مکمل عوامی فہرست، مقامی رضامندی، یا ماحولیاتی و معاشرتی اثرات کی رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔ نہری نظام کی تعمیر سے لے کر زمین کی الاٹمنٹ تک، ہر قدم پراسرار، مرکزی اور بند کمرہ فیصلوں کا عکاس ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا سرائیکی وسیب کے عوام محض دیکھتے رہیں گے کہ ان کی زمین، پانی، اور زندگی کے وسائل۔جن پر ان کی نسلوں نے قربانیاں دیں۔چند دستار بند یا وردی پوش طبقے کی ملکیت بنتے جا رہے ہیں؟ یا کیا وقت آ گیا ہے کہ سرائیکی وسیب ایک اجتماعی شعور اور سول مزاحمت کے ساتھ اپنی زمین، شناخت اور وقار کی بازیابی کے لیے کھڑا ہو؟
چولستان میں نہریں نکلنے کا مسئلہ اب صرف پانی کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ریاست کے اس وعدے پر جو مساوی حق، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور مقامی خود اختیاری کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اگر ریاست واقعی وفاقی ہے تو اسے اپنے ہر خطے کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرنا ہوگا۔ ورنہ، پانی کی روانی کے ساتھ محرومی کی شدت بھی بڑھے گی۔اور یہ محرومی، کسی بھی ریاست کے لیے، پائیدار نہیں ہوتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں