بات رمضان کے دنوں کی ہے ، میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی کے ساتھ ، جمعیۃ کے دفتر میں بیٹھا کوئی بات کر رہا تھا ، کہ ان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور دفتر کے باہری ہال میں جمع ، ملک بھر کے مختلف مدرسوں کے سفیروں میں سے ، جو تصدیق نامہ حاصل کرنے کے لیے آئے تھے ، ایک سفیر یہ ’ فریاد ‘ کرتے ہوئے داخل ہوا کہ اسے تصدیق نامہ نہیں دیا جا رہا ہے ۔ صدر جمعیۃ نے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے ، کیوں انہیں تصدیق نامہ جاری نہیں کیا جا رہا ہے؟ پتا چلا کہ مدرسے کا سی اے سے جاری سرٹیفیکیٹ ’ مشتبہ ‘ ہے اور زمین کے کاغذات درست نہیں ہیں نیز مدرسے کا رجسٹریشن نہیں ہے ۔ مولانا نے جب اس بارے میں سفیر سے وضاحت چاہی تو وہ کوئی تشفی بخش جواب دینے کی بجائے کہنے لگا کہ یہ فلاں فلاں حضرت کا مدرسہ ہے ؛ یعنی کاغذات کی نا درستگی کے باوجود تصدیق نامہ جاری کیا جائے ۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر حکومت نے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ گرانے کے لیے بلڈوزر بھیج دیا تو؟ جواب ملا : بلڈوزر تو کاغذات والے مدرسوں کے لیے بھی بھیجے جاتے ہیں ۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے ، رمضان میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے، اور رمضان سے پہلے بھی ۔ ہمارے مدرسوں ، مذہبی مقاموں ، عبادت گاہوں اور آثاروں کے اکثر منتظمین کا رویہ مذکورہ سفیر جیسا ہی ہے ؛ کاغذات نہ بنوانا اور تصدیق ناموں کی امید رکھنا ، ساتھ ہی فخر سے کہنا کہ جب کاغذات والی عمارتیں بلڈوزر کی زد میں ہیں تو ہمیں کیا ضرورت کہ کاغذات بنائیں ! یہی رویہ بربادی کا سبب بنا ہے ۔ یہی رویہ ہے جس کے سبب اتراکھنڈ میں مدرسوں کی ایک بڑی تعداد پر فرقہ پرست حکومت کو تالے لگوانے کا موقع مل گیا ہے ۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے مودی اور شاہ کو ایک ایسا وقف قانون بنانے کا موقع فراہم کیا ہے ، جومکمل نافذ ہوا تو ملک میں نہ جانے کتنے مدرسوں اور مسجدوں پر قفل لگ جائیں گے اور نہ جانے کتنی قدیم عمارتوں اور اوقاف کی آراضی پر سرکاری قبضے ہو جائیں گے ۔ اور نہ جانے کتنے قبرستان چِھن جائیں گے ۔ مسلمانوں کے اجداد نے بہت بڑی آراضی وقف کی شکل میں چھوڑی ہے ، جس پر مدرسے اور مسجدیں اور مسافر خانے و قبرستان وغیرہ بنائے گیے ہیں ، ان کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ۔ یقیناً وقف املاک کا بیجا استعمال بھی ہوا ہے یا ہو رہا ہے اور قبضے بھی ہوئے ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اوقاف پر حکومت قبضہ کر لے ۔ کرنا یہ ہوگا کہ اوقاف پر نہ حکومت قبضہ کرسکے اور نہ اپنوں میں سے کوئی اوقاف کا بیجا استعمال یا قبضہ کر سکے ۔ضرورت ہے کہ اوقاف کی جو املاک ہیں انہیں قانونی بنایا جائے ، کاغذات اور سرکاری دستاویزات مکمل ہوں ۔ افسوس یہ ہے کہ یوپی ، ایم پی اور اتراکھنڈ میں بلڈوزر کارروائی کے باوجود مسلمانوں کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے ۔ جو نئے مدرسے ، مسجدیں اور مذہبی کام کاج کی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں ، ان میں سے اکثر کے منتظمین قانونی دستاویزات کے حصول پر توجہ نہیں دیتے اور عدالتی جھمیلوں میں پھنس کر لاکھوں روپیے گنوا دیتے ہیں ۔ وقف قانون پر شنوائی کے دوران چیف جسٹس نے حکومت سے یہ سوال کیا تھا کہ قدیم دور کے اوقاف کہاں سے رجسٹریشن کے کاغذات لائیں گے ، لیکن جدید دور کے اوقاف کے لیے وہ یہ سوال نہیں پوچھ سکتے ، کیونکہ اب رجسٹریشن کی سہولت ہے ، جو پہلے آج جیسی نہیں تھی ۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے چِھن جائے اپنے اپنے کاغذات درست کروا لیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں