کیا ہوگیا ابَا؟-تحریر/اختر شہاب

یہ آج کل ٹی وی پر دکھائے جارہےاشتہار کا ایک ڈائیلاگ ہےاور یہ واقعی ہم سے سوال کرتا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری معاشرتی قدروں کو ”کیا ہو گیا ہے؟؟” یہ ٹی وی اسکرینوں پر موجود اشتہار کا صرف ایک حصہ نہیں، بلکہ معاشرے کے ضمیر کو جھنجوڑنے والا ایک سوال بھی ہے۔ کیا واقعی ہماری معاشرتی قدروں کو کچھ ہو گیا ہے؟ یا پھر ہم خود ہی اپنی اقدار کو بدلنے پر مجبور ہیں؟
مجھے نہیں معلوم اس اشتہار کو بنانے والے اور سینسر کرنے والے معاشرے کے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن لگتا ہے ہم ادب اداب اور تمیز بھی بھول گئے ہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب والد سے بات کرنے کی یہی تمیز رہ گئی ہے؟

اشتہار میں “کیا ہو گیا ابا!!” جیسے فقرے کا استعمال والدین سے مخاطب ہونے کے روایتی ادب کے برعکس ہے۔ہمارے ہاں والدین کو “آپ”، “جناب”، یا احترام آمیز القابات سے پکارنے کی روایت رہی ہے۔ یہاں تک کہ غیر رسمی گفتگو میں بھی “ابا” جیسے لفظ کے ساتھ نرم لہجہ اور زبان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اشتہار میں باپ بیٹے میں بے تکلفی دکھاتے ہوئے اس تاثر کی بالکل نفی کردی گئی ہے جو ہماری سماجی اقدار کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

اشتہارات ایک طرح معاشرتی عکاس ہوتے ہیں، لیکن وہ سماجی رویوں کو تشکیل بھی دیتے ہیں۔ کل تک ہمارے معاشروں میں خاندان کا تصور ایک “مکمل درخت” کی مانند تھا، جہاں بزرگوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت، اور رشتوں کی پاسداری ہی معیارِ زندگی تھی۔ “ابا” کا لفظ صرف ایک والد ہی نہیں، بلکہ احترام، تحفظ، اور روایت کی علامت تھا۔ مگر آج یہی لفظ ایک اشتہار میں استعمال ہو کر ہماری اخلاقی خرابیوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جیسے ہم نے اپنے بزرگوں کو محض سوشل میڈیا کی “لیکس” اور احترام کو “پرانی روایت” سمجھ لیا ہے۔ جدیدیت کی دوڑ میں ہم نے مادی ترقی کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ گھر کی رونقیں اب “لیٹیسٹ گیجٹس” سے ہوتی ہیں، بچوں کی کامیابی کا پیمانہ “ڈگریاں” ہیں، اور رشتوں کی مضبوطی “بینک بیلنس” پر منحصر ہے۔ ایسے میں جذبات، ہمدردی، اور اخلاقیات جیسی قدریں پیچھے رہ گئی ہیں۔ کیا یہی وہ معاشرہ ہے جس کی بنیاد ہمارے آباؤ اجداد نے “انسانیت” پر رکھی تھی؟

یوں لگتا ہے شاید یہ اشتہار کسی خاتون نے لکھا ہے جن کا دکان داروں سے بھائو تائو کرتے ہوئے عام طور پرایک ہی تکیہ کلام ہوتا ہے کہ *” کیا ہو گیا بھائی!”* یا پھر اشتہار لکھنے والے نے خواتین کے اس جملے سے متاثر ہو کر اشتہار کا کونسیپٹ بنایا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ باپ جیسے محترم رشتے کو یوں دکان دار جیسے غیر رسمی انداز میں پیش کرنا خاندانی رشتوں کی تقدیس کو مجروح کرتا ہے۔ گویا اس لحاظ سے ابا کی حیثیت باپ کے معزز عہدے کے بجائے اب ایک دکاندار کی سی رہ گئی ہے، جس کا کام پیسے کما کر لانا، پیسے دیتے ہوئے حساب کتاب کرنا، گھر میں فالتو لائٹیں بند کرتے رہنا وغیرہ ہی رہ گیا ہے۔ کیونکہ بچوں کی تربیت تو والدین اور معاشرے کے بجائے اب موبائل اور یہ بے مغز اشتہارات ہی کر رہے ہیں نیز ٹی وی، فلمیں، اور سوشل میڈیا نے ہمیں مغربی کلچر کے ایسے رنگ میں ڈبونے کی کوشش کی ہے جہاں “فیملی ٹائم” کی جگہ “پارٹی ٹائم”، “عزت” کی جگہ “فیشن”، اور “حیا” کی جگہ “آزادی” نے لے لی ہے۔ نتیجہ؟ نوجوان نسل اپنی شناخت کھو رہی ہے اور بزرگ خود کو غیر متعلق محسوس کر رہے ہیں۔ کیا ہماری اقدار واقعی “پرانی” ہو گئی ہیں، یا ہم انہیں نیا روپ دینے میں ناکام ہو رہے ہیں؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں سماجی معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے سماجی اقدار پر غور کرکے ان کے مطابق اشتہارات بنانے کے بجائے صرف “وائرل” ہونے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں یا ان پر معاشرے اور سنسر بورڈ کا کوئی دبائو بھی ہے۔ہمارے ہاں ایسے مواد کا بے جا استعمال اخلاقیات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔
ویسے اب یوں ایسا لگتا ہے ہم لوگ بھی بے حس ہوگئے ہیں اور لوگوں نے اس بات سے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ جو بھی کہو جو بھی لکھو وہ سب صحیح ہے نہ کوئی سمجھانے والا ہے اور نہ کوئی بتانے والا اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ اشتہار محض ایک اشتہار نہیں بلکہ خاموش معاشرتی تبدیلیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ادب اداب سے دوری اور اس اخلاقی گراوٹ کو روکنے کا کوئی طریقہ ہے۔۔۔؟؟

julia rana solicitors

جہاں تک “اخلاقی گراوٹ” کا تعلق ہے، اسے روکنے کے لئے میڈیا کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنا ہوں گی اور عوام اپنی ثقافتی جڑوں سے جڑے رہنے کی کوشش کریں گے۔ ادب اور تمیز صرف الفاظ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی شناخت کا حصہ ہیں—انہیں بگاڑنے کے بجائے سنوارنے کی ضرورت ہے۔
اس کے لئے معاشرے کو ماضی کی طرف لوٹانے کی بجائے، ہمیں اپنی قدروں کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا، اخلاقیات کو تعلیم کا حصہ بنانا، اور میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ یاد رکھیے، اقدار کبھی “اکائونٹس” کی طرح ڈلیٹ نہیں ہوتیں، انہیں صرف نظر انداز کیا جاتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی کے نام پر اپنی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ درخت جتنی بلندی پر جائے گا، اسے اپنی جڑوں کی اتنی ہی ضرورت ہوگی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو “شرمندگی” نہیں، “فخر” سمجھیں، اور اقدار کو “ماضی کا بوجھ” نہیں، “مستقبل کی بنیاد” بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply