ماوازم کیوں؟ — ششی پرکاش کی کتاب کا نظریاتی و سیاسی تجزیہ

ششی پرکاش کی کتاب “Why Maoism” کوئی روایتی سیاسی رسالہ نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی اعلامیہ ہے ایک پکار کہ آج کے انتشار، بربریت، اور استحصال کے عہد میں ہمیں مارکسزم-لینن ازم-ماوازم کی انقلابی روشنی میں راستہ تلاش کرنا ہوگا۔مصنف ششی پرکاش خود بھارت کے انقلابی حلقوں سے وابستہ رہے ہیں اور Jan Prakashan جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے ایک انقلابی وژن کو سامنے لاتے ہیں۔
مصنف کے مطابق، ماوازم صرف نظریہ نہیں بلکہ انقلابی حکمتِ عملی (Strategy) ہے،طبقاتی جدوجہد کا انداز (Tactics) ہےاور ایک فکری و عملی تحریک ہے۔وہ اسے مارکس اور لینن کی سوچ کی تاریخی توسیع کہتے ہیں، جسے ماؤ نے چین کے مخصوص مادی حالات میں برتا اور ترقی دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ماوازم ایک مکمل فلسفہ ہے جس میں طبقاتی تجزیہ ، انقلابی جماعت کی ضرورت، مسلح جدوجہداور سماجی تعلقات کی ہمہ گیر تبدیلی شامل ہیں۔
ششی پرکاش یہ واضح کرتے ہیں کہ سرمایہ داری، بالخصوص سامراجی سرمایہ داری، محض ایک معاشی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر جابرانہ نظام ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف معاشی استحصال کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ریاستی طاقت، فوجی جبر، ثقافتی تسلط، اور نظریاتی غلبے کو بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنی سامراجی شکل میں دنیا کے غریب ممالک کو کالونیوں کے طور پر برتتی ہے۔ان کے قدرتی وسائل، سستی مزدور قوت اور منڈیوں کو لوٹتی ہے۔ اس دوران، وہ ان ممالک میں جبر کے ایسے مقامی ڈھانچے پیدا کرتی ہے جو نہ صرف ظالمانہ ریاستی اداروں کے ذریعے عوام کو دبائے رکھتے ہیں بلکہ میڈیا، تعلیم، اور ثقافت کے ذریعے عوام کی شعوری سمت کو بھی سرمایہ دارانہ مفادات کے تابع بنا دیتے ہیں۔مسلح عوامی جدوجہد محض ایک نظریاتی آپشن یا وقتی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک ناگزیر انقلابی راستہ ہے۔ ماوازم اسی حقیقت کو سمجھاتا ہے کہ جب ریاست خود عوام کے خلاف تشدد اور جبر کا آلہ بن جائے، جب قانون، عدالتیں اور پولیس خود سرمایہ دار طبقے کے محافظ بن جائیں، تو ان کے خلاف پرامن اور دستوری مزاحمت کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ پھر صرف مسلح عوامی طاقت ہی وہ قوت ہے جو جبر کے قلعے کو توڑ سکتی ہے۔ششی پرکاش تاریخی مثالوں سے یہ مؤقف ثابت کرتے ہیں کہ صرف وہ تحریکیں جنہوں نے ریاستی طاقت کو براہِ راست چیلنج کیا جیسا کہ چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ تحریک، ویتنام میں ہوچی منہ کی قیادت میں سامراج مخالف جنگ، کیوبا میں فیدل کاسترو اور چی گویرا کی گوریلا جدوجہد، یا فلپائن اور بھارت میں موجودہ ماوزسٹ تحریکیںوہی کامیاب ہو سکیں جو محض نعروں، احتجاجوں یا پارلیمانی بغاوتوں پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ عوام کو منظم کر کے مسلح مزاحمت کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ماوازم میں پارٹی صرف ایک تنظیمی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک زندہ انقلابی ادارہ ہے، جو عوامی شعور کو تشکیل دیتا ہے، اسے منظم کرتا ہے، اور عمل کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پارٹی کو عوام کے ساتھ جڑ کر ان کے دکھ درد، مطالبات، اور روزمرہ کے تجربات میں رچ بس جانا چاہیے۔ ماوازم کے مطابق، ایک صحیح پارٹی وہی ہے جو عوامی زندگی میں گہرائی سے پیوست ہو نہ کہ محض الیٹ دانشوروں یا بورژوا سیاست دانوں کی کلب ہو۔پارٹی کے اندر جمہوریت اور مرکزیت کا امتزاج یعنی Democratic Centralism انتہائی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کے اندر ہر سطح پر آزادی سے بحث و مباحثہ ہو، ہر کارکن کو رائے دینے اور سوال اٹھانے کا حق ہو، مگر ایک بار فیصلہ ہو جائے تو پوری جماعت اتحاد کے ساتھ عملدرآمد کرے۔ یہ طریقہ نہ صرف جماعتی اتحاد کو ممکن بناتا ہے بلکہ اجتماعی دانش اور عملی یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ ماواسٹوں کی پارٹی کوئی بند، بیوروکریٹک ادارہ نہیں بلکہ ایک انقلابی لیبارٹری ہے جہاں ہر کارکن مسلسل سیاسی تربیت، عملی تجربہ، اور خوداحتسابی سے گزرتا ہے۔ ایسی پارٹی نہ صرف اقتدار کے لیے لڑتی ہے بلکہ وہ ایک نیا انسان، نئی اخلاقیات، اور نئی سماجی تعلقات پیدا کرنے کی کوشاں ہوتی ہے۔
ششی پرکاش ماؤ کے ثقافتی انقلاب کو ماوازم کی فکر اور عملی حکمتِ عملی کا نہایت مرکزی اور کلیدی پہلو قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، صرف معاشی ذرائعِ پیداوار پر مزدور طبقے کا قبضہ کر لینا، یا سرمایہ داروں کو نکال کر ریاستی ادارے قائم کر لینا، کسی بھی سوشلسٹ انقلاب کی مکمل کامیابی کی ضمانت نہیں دیتا۔ وہ اس تصور کو رد کرتے ہیں کہ انقلاب کا مرحلہ اقتدار کی تبدیلی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ششی پرکاش اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوشلسٹ ریاست میں بھی ایک نئی حکمران اشرافیہ جنم لے سکتی ہے وہ لوگ جو رفتہ رفتہ عوام سے کٹ جاتے ہیں، پارٹی کو اقتدار کا آلہ بنا دیتے ہیں، اور سابقہ سرمایہ داروں کی طرح ہی طاقت، مراعات، اور کنٹرول کے مزے لینے لگتے ہیں۔یہ نئی رجعتی پرت بظاہر مزدوروں کے نام پر حکومت کرتی ہے، مگر درحقیقت اس کا مزاج سرمایہ دارانہ اور بیوروکریٹک ہوتا ہے۔ ششی پرکاش اس تجزیے کو ماؤ کی بصیرت کا حصہ مانتے ہیں، جس نے سوویت یونین کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بغیر ثقافتی اور نظریاتی صفائی کے، انقلاب کی روح دم توڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماؤ نے چین میں “ثقافتی انقلاب” کا آغاز کیا ایک ایسا عمل جس کے ذریعے نہ صرف ریاستی اداروں میں گھس بیٹھے نئے اشرافی عناصر کو بے نقاب کیا جا سکے، بلکہ عوام، بالخصوص نوجوانوں اور مزدوروں کو اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ خود آگے بڑھ کر پارٹی اور ریاست کے اندر موجود رجعتی عناصر کا محاسبہ کریں۔
ماؤ کے نزدیک انقلاب کوئی ایسی شے نہیں جس کا آغاز محض اقتدار کی تبدیلی سے ہوتا ہے اور پھر وہ ایک مقام پر جا کر رک جاتا ہے۔ بلکہ ماؤ کی انقلابی تھیوری کے مطابق، انقلاب ایک مسلسل، غیرمنقطع، اور جدلیاتی عمل ہے ایسا عمل جو ہر مرحلے پر پرانی دنیا کی باقیات کے ساتھ ٹکراتا ہے اور ہر لمحہ خود کو نئے میدانوں میں، نئے مورچوں پر ثابت کرتا ہے۔ صرف معاشی تبدیلی یا سیاسی ڈھانچے کی تجدید کافی نہیں، کیونکہ پرانی دنیا صرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اور استحصالی طبقات کی شکل میں نہیں رہتی، بلکہ وہ لوگوں کی سوچ، رویوں، عادات، اور اقدار میں بھی بسی ہوتی ہے۔عوامی شعور کو مسلسل بلند کیے بغیر انقلاب صرف ایک خول بن کر رہ جاتا ہے۔ جو معاشرہ محض اداروں کو بدل کر سمجھتا ہے کہ انقلاب آ گیا، وہ دراصل ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔ ماؤ کا استدلال یہی ہے کہ عوام کو صرف پیداوار کے ذرائع تک رسائی دینا کافی نہیں، بلکہ ان کی نظریاتی تربیت، سیاسی شعور، اور ثقافتی اُٹھان کو بھی یقینی بنانا ہوگا تاکہ وہ نہ صرف استحصال کے خلاف لڑ سکیں، بلکہ وہ ہر اس شے کو پہچان سکیں جو استحصالی ذہنیت کو زندہ رکھتی ہے۔اسی مقصد کے لیے ماؤ “ہمہ گیر ثقافتی جنگ” (Cultural Struggle) کا تصور پیش کرتے ہیں، جسے ششی پرکاش ماوازم کی بنیادی روح قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو توپوں یا بندوقوں سے نہیں بلکہ نظریے، سوال، تخلیق، اور شعور کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ یہاں معرکہ بندی ادب، موسیقی، فلم، تعلیم، خاندانی رشتوں، روزمرہ کی زبان اور رویوں کے میدان میں ہوتی ہے۔ ماؤ کے نزدیک اگر ایک انقلابی ریاست کے اندر اسکول وہی پرانی سامراجی یا بورژوا اقدار سکھا رہے ہوں، اگر ادب میں وہی پرانے طبقاتی تضادات کی شان ہو، اگر خاندان میں مردانہ حاکمیت، جائیداد کا وراثتی حق، اور عورت کو محکوم رکھنے والے اصول جاری رہیں، تو انقلاب محض نام کا رہ جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ماؤ اور ماوازم میں ثقافتی انقلاب کو صرف ریاستی صفائی یا پارٹی کی اندرونی تطہیر کا عمل نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ پورے سماج کو نئی بنیادوں پر تشکیل نو دینے کی کوشش ہے۔ اس عمل میں نہ صرف عوام کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ پرانا کیا ہے اور نیا کیا ہو سکتا ہے، بلکہ انہیں یہ طاقت بھی دی جاتی ہے کہ وہ خود اپنی دنیا کو بدلنے کا عمل اپنے ہاتھ میں لیں۔
ادب، فن، تعلیم، خاندانی رشتے، جنسی اخلاقیات، عورت و مرد کے تعلقات، محنت کے ساتھ رشتہ، اور حتیٰ کہ انسان کے خواب اور زبان یہ سب ثقافتی انقلاب کے میدان ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں پرانی دنیا نے اپنے اثرات گہرائی میں پیوست کیے ہوتے ہیں۔ ماؤ کے نزدیک ان مقامات کو بغیر بدلے، محض ریاست پر قبضہ کرنا بیکار ہے۔ مثلاً اگر عورت کو گھریلو دائرے میں ہی قید رکھا جائے، چاہے ریاست سوشلسٹ ہو، وہ معاشرہ انقلابی نہیں کہلا سکتا۔ اگر مزدور محنت تو کرے لیکن اس کے ذہن میں نوکری، ترقی اور مقابلے کا بورژوا خواب پلتا رہے، تو انقلاب محض دکھاوے میں ہوگا، اصل میں نہیں۔ ثقافتی انقلاب کا مطلب ہے سوچنے کے طریقے کو بدلنا، یعنی “انقلاب صرف باہر نہیں، اندر بھی ہوتا ہے”۔ یہ وہ پہلو ہے جسے سوویت ماڈل نے نظرانداز کیا، اور یوں وہ ریاست بتدریج ایک نئی اشرافیہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ انقلاب کی حفاظت صرف عوام خود کر سکتے ہیں، اور عوام کو اس قابل بنانا، ان کے شعور کو مسلسل بلند کرنا، اور ثقافت کو بدلنا، ہر انقلابی تحریک کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں ششی پرکاش ماوازم اور سوویت ماڈل کے درمیان ایک فیصلہ کن فرق کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک، سوویت ماڈل میں انقلاب ایک میکانیکی عمل بن کر رہ گیا تھا اقتدار پر قبضہ، ذرائع پیداوار کو قومیانا، اور ایک منظم ریاستی بیوروکریسی کا قیام۔ ابتدا میں یہ سب کچھ محنت کش طبقے کے مفاد میں تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، پارٹی کے اندر جمہوری عمل ختم ہونے لگا، عوامی شراکت کمزور ہوتی گئی، اور انقلاب کا جوش و جذبہ صرف اوپر کی صفوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ پارٹی ایک جیتی جاگتی انقلابی قوت کے بجائے ایک بند اشرافیہ میں ڈھل گئی، جو خود کو عوام کے نگہبان کے بجائے ان پر حکمران سمجھنے لگی۔اس کے برعکس، ماوازم میں انقلاب کو ایک مسلسل عمل سمجھا جاتا ہے جس کی جان عوامی شرکت اور نظریاتی جدوجہد میں ہے۔ ششی پرکاش وضاحت کرتے ہیں کہ ماؤ کے نزدیک پارٹی کی اصل طاقت اس کی جڑت میں ہے عوام کے ساتھ، ان کے اندر، اور ان کی قیادت سے۔ ماؤ کے لیے عوام صرف حمایت دینے والی قوت نہیں بلکہ انقلاب کی اصل بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماوازم ریاستی طاقت کے حصول کو انقلاب کا اختتام نہیں بلکہ نقطۂ آغاز سمجھتا ہے۔
ریاستی طاقت پر قبضہ گو کہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے، مگر ماؤ کی فکر کے مطابق، اگر اس طاقت کا استعمال محض نظم و ضبط کے قیام اور معیشت کو کنٹرول کرنے تک محدود رہے، اور اگر عوامی شعور، ثقافتی عمل، اور نظریاتی لڑائیوں کو ثانوی حیثیت دے دی جائے، تو انقلاب جلد ہی اپنی روح کھو بیٹھتا ہے۔ ماوزم اس کے برعکس، عوامی شرکت کو ادارہ جاتی بناتا ہےجیسے کمیونز، انقلابی کمیٹیاں، اور عوامی عدالتیں، تاکہ ہر سطح پر محنت کش طبقہ خود کو طاقت کے مالک کے طور پر محسوس کرے، نہ کہ صرف ایک تابع کے طور پر۔ ماوازم سرمایہ داری کو صرف ایک معاشی ڈھانچے کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ ایک مکمل تہذیبی نظام کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ وراثت صرف فیکٹریوں اور زمینوں میں نہیں ہوتی، بلکہ یہ روزمرہ کی زبان، تعلقات، اقدار، خوابوں، اور یہاں تک کہ محبت کے تصور تک میں سرایت کیے ہوتی ہے۔ اس لیے ماوازم کا مطالبہ ہے کہ انقلاب نہ صرف معاشی بنیادوں کو بدلے بلکہ ثقافتی، اخلاقی، اور نظریاتی سطحوں پر بھی ایک مکمل تبدیلی لائے ایک ایسا سماج تعمیر کرے جو پرانی دنیا کی تمام شکلوں سے آزاد ہو۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ششی پرکاش سوویت ماڈل پر شدید تنقید کرتے ہیں: کہ اس نے عوام کو انقلاب کا مرکز بنانے کے بجائے انہیں ایک نظم و ضبط کی قوت میں بدل دیا، جس کا کام صرف حکم بجا لانا اور ریاستی فیصلوں کی پیروی کرنا رہ گیا۔ نتیجتاً، ریاست دوبارہ سے ایک مقتدر قوت بن گئی اور وہی استحصالی ڈھانچے نئی شکلوں میں لوٹ آئے۔اس کے برعکس، ماوازم عوام کو مسلسل متحرک رکھنا چاہتا ہے۔ ہر فرد کو ایک انقلابی فاعل (revolutionary subject) بنانا، ہر ادارے کو عوامی کنٹرول میں رکھنا، اور ہر سطح پر نظریاتی و ثقافتی بحث کو زندہ رکھنا ماوزم کا ہدف ہے۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو ششی پرکاش کے مطابق، ماؤ کو دیگر سوشلسٹ تجربات سے ممتاز کرتا ہے۔
ششی پرکاش اس تمام عمل کو نہ صرف سوشلسٹ تعمیر نو کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں بلکہ ماوازم کی اس امتیازی خصوصیت کو دیگر مارکسی دھاروں سے بلند تر مقام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، اگر کسی انقلابی تحریک میں ثقافتی انقلاب کا شعور، اس کی منصوبہ بندی، اور اس کا عمل دخل موجود نہ ہو، تو وہ تحریک جلد یا بدیر ریاستی طاقت کے جال میں پھنس کر یا تو بورژوا سیاست میں تحلیل ہو جائے گی یا پھر ایک نئے استحصالی طبقے کو جنم دے گی۔ لہٰذا، وہ ماوازم کو نہ صرف ایک سیاسی لائحہ عمل بلکہ ایک انقلابی اخلاقیات کا نام دیتے ہیں، جو انسان کے شعور، سماجی رشتوں، اور روزمرہ کی زندگی میں انقلابی تبدیلی کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا۔

ششی پرکاش اپنی کتاب میں سرمایہ داری کو اس کے زوال کے تاریخی مرحلے میں قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، آج کا عہد وہ مقام ہے جہاں سرمایہ دار نظام اپنی اندرونی تضادات کے بوجھ تلے خود ہی ڈھیر ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، بدترین معاشی عدم مساوات، ماحولیاتی تباہی، سامراجی جنگیں، مہاجرین کے بحران، نسلی و مذہبی منافرت اور عالمی سطح پر عدم استحکام یہ سب محض وقتی حادثات نہیں بلکہ سرمایہ داری کے ڈھانچہ جاتی بحران (structural crisis) کی علامات ہیں۔ ان مسائل کا کوئی حل سرمایہ داری کے اندر موجود نہیں، کیونکہ یہی نظام ان مسائل کو جنم دینے والا ہے۔ آج دنیا کے کونے کونے میں انسانیت کی بربادی کے پیچھے صرف “مارکیٹ کی قوتیں” نہیں بلکہ باقاعدہ سامراجی ادارے اور ریاستی مشینری ہے جو ان مظالم کی پشت پناہی کرتی ہے۔ وہ IMF، ورلڈ بینک، WTO، G20 اور نیٹو جیسے اداروں کو عوام دشمن سامراجی ڈھانچے قرار دیتے ہیں جن کا مقصد ترقی پذیر ممالک پر قرضوں، تجارتی معاہدوں، فوجی مداخلتوں اور ثقافتی یلغار کے ذریعے معاشی و سیاسی تسلط برقرار رکھنا ہے۔ ان اداروں کی اصل وفاداری انسانیت یا عالمی امن سے نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ہے۔ جب کسی ملک میں عوام بغاوت کرتے ہیں، تو یہ ادارے یا تو پابندیاں لگاتے ہیں، یا “ریجیم چینج” کے نام پر مداخلت کرتے ہیں۔ سامراجی سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ اس کے نرم چہرے یعنی پارلیمانی سیاست، لبرل جمہوریت، این جی اوز، اور اصلاح پسندادارے اور نظریات درحقیقت استحصالی نظام کی حفاظت کرتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست سرمایہ داری کو “قانونی جواز” فراہم کرتی ہے، جس میں عوام کو ہر پانچ سال بعد رائے دہی کا حق دے کر انہیں سیاسی شرکت کا جھوٹا فریب دیا جاتا ہے، جبکہ اصل اقتدار سرمایہ داروں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھ میں رہتا ہے۔این جی اوز اور لبرل تنظیمیں بظاہر انسانی حقوق، ماحولیات، صنفی مساوات اور ترقی جیسے موضوعات پر کام کرتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ سب انقلابی سیاست کے متبادل کے طور پر تیار کی گئی ہیں تاکہ نوجوان نسل کو ریاستی و انقلابی کشمکش سے ہٹا کر اصلاح پسندی، عطیہ کلچر، اور انفرادی فلاح کے دائرے میں محدود کر دیا جائے۔ ان کا کام نہ ریاستی طاقت کو چیلنج کرنا ہے، نہ طبقاتی نظام کو، بلکہ سرمایہ داری کو “انسان دوست” بنانے کا فریب پھیلانا ہے۔اسی لیے ششی پرکاش کے مطابق، آج کے دور میں حقیقی انقلابی متبادل صرف ماوازم ہے ایک ایسی تھیوری جو نہ صرف سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑنے کا لائحہ عمل دیتی ہے بلکہ ایک ایسا متبادل سماجی، سیاسی اور ثقافتی خاکہ بھی فراہم کرتی ہے جس میں عوام کو اصل طاقت کا سرچشمہ بنایا جا سکے۔ماوازم صرف انقلاب کی بات نہیں کرتا، بلکہ انقلاب کے طریقۂ کار، پارٹی کی ساخت، عوام کے ساتھ رشتہ، ثقافتی جنگ، اور مسلسل نظریاتی صفائی کی بات کرتا ہے۔ یہ ماوازم کی وہ انفرادیت ہے جو آج کے شدید زوال پذیر سرمایہ دارانہ دور میں نہایت ضروری، انقلابی، اور لافانی نظر آتی ہے۔
ششی پرکاش اپنی کتاب Why Maoism میں بھارتی ماؤسٹ تحریک کو ایک محض باغی یا عسکری تحریک نہیں بلکہ ایک عوامی جمہوری انقلاب (People’s Democratic Revolution) کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تحریک سرمایہ داری، جاگیرداری، پدرسری نظام، برہمن واد، اور سامراجی مداخلت کے خلاف ایک ہمہ جہت مزاحمت ہے، جو ہندوستان کے سب سے پسماندہ، استحصال زدہ اور محروم طبقات کو متحرک کرتی ہے۔وہ اس تاریخی تسلسل کو نکسل باڑی بغاوت (1967) سے جوڑتے ہیں، جب مغربی بنگال میں کسانوں نے جاگیردارانہ استحصال کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ یہ بغاوت محض زمین کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک نئے سماج کی تعمیر کے لیے تھی، اور یہیں سے ماؤازم کو ایک زندہ انقلابی متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک بھارت کے مختلف خطوں میں پھیلتی گئی جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڈیشہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا، بہار، تلنگانہ اور مغربی بنگال جہاں دہائیوں سے ریاستی جبر، زمینی نابرابری، ذات پات کی جکڑ، قبائلی حقوق کی پامالی، اور نجکاری کی پالیسیوں نے عام انسانوں کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا ہوا تھا۔CPI (Maoist) نے ان علاقوں میں مزدوروں، کسانوں، قبائلیوں، دلتوں، عورتوں، اور نوجوانوں کو ایک انقلابی تنظیم میں پرویا۔ اس تنظیم نے صرف احتجاج نہیں کیا بلکہ مقامی سطح پر متبادل ڈھانچے بھی قائم کیے— جنہیں وہ “انقلابی عوامی کمیٹیاں” کہتے ہیں— جہاں صحت، تعلیم، انصاف، زمین کی تقسیم، خواتین کے حقوق، اور عوامی تحفظ کا کام خود عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ریاستی ردعمل اس انقلابی پیش رفت کے خلاف انتہائی جابرانہ رہا ہے۔ ششی پرکاش لکھتے ہیں کہ ہندوستانی ریاست نے CPI (Maoist) کے خلاف نہ صرف فوجی آپریشنز شروع کیے (جیسا کہ “گرین ہنٹ آپریشن”) بلکہ جعلی مقابلوں، غیرقانونی گرفتاریاں، عقوبت خانے، اور میڈیا پروپیگنڈہ کے ذریعے اس تحریک کو “دہشتگرد” ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ قبائلی علاقوں میں ہزاروں دیہاتیوں کو ماو نواز ہونے کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیا، خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اور مقامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔لیکن اتنے شدید جبر کے باوجود یہ تحریک ختم نہیں ہو سکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریک عوام کے روزمرہ کے دکھ، درد، استحصال، اور خوابوں سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ محض بندوق اٹھانے کی بات نہیں کرتی بلکہ ایک ایسا متبادل نظام پیش کرتی ہے جہاں عوام کو عزت، حق اور طاقت دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کسان، دلت، قبائلی، اور نوجوان آج بھی ماؤازم کو اپنی امید کے طور پر دیکھتے ہیں، اور یہی ماوازم کی حقیقی طاقت ہے۔بھارت میں ماؤسٹ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی طاقت، میڈیا کی یلغار، اور لبرل سیاست کی سستی چالاکیاں، ایک ایسی انقلابی تحریک کو ختم نہیں کر سکتیں جو عوام کے دلوں اور ذہنوں میں گھر کر چکی ہو۔ اس تحریک نے ثابت کیا ہے کہ جب عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو جھکا نہیں سکتی۔ ماؤسٹ تحریک اس خطے میں نہ صرف ظلم کے خلاف بغاوت کی علامت ہے بلکہ ایک نئے سماج کے خواب کی عملی شکل بھی ہے۔
ششی پرکاش اپنی کتاب Why Maoism میں عورتوں کے سوال کو ماؤازم کی سیاست کا محوری حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سرمایہ داری اور پدرشاہی کا گٹھ جوڑ عورتوں کو نہ صرف گھریلو بلکہ سماجی، معاشی، جنسی اور نظریاتی سطح پر دہرا اور ہمہ جہت استحصال کا شکار بناتا ہے۔ وہ اس نقطے پر زور دیتے ہیں کہ عورتوں کی آزادی محض صنفی برابری کا مسئلہ نہیں، بلکہ انقلابی جدوجہد کا بنیادی ستون ہے، جس کے بغیر کوئی بھی تحریک مکمل یا کامیاب نہیں ہو سکتی۔وہ لکھتے ہیں کہ ماؤسٹ تحریکیں عورتوں کو محض “ریلیوں کی شراکت دار” یا “پس پردہ مددگار” کے طور پر نہیں بلکہ انقلابی قائدین کے طور پر دیکھتی اور تیار کرتی ہیں۔ یہ تحریکیں عورتوں کو سیاسی، عسکری، نظریاتی اور تنظیمی سطح پر قیادت میں لاتی ہیں، تاکہ وہ صرف مردوں کے ساتھ نہیں بلکہ مردوں سے آگے بڑھ کر انقلابی عمل کی رہنمائی کریں۔ بھارت کی ماؤسٹ تحریک میں ہزاروں عورتیں جنگلوں، گاؤں، چھاپہ مار یونٹس اور انقلابی کمیٹیوں میں سرگرم ہیں۔ ان کے لیے ماؤازم صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ زندگی بدلنے کا ہتھیار ہے۔ششی پرکاش کی دلیل ہے کہ زنا بالجبر، گھریلو تشدد، جہیز، ذات پات کی بنیاد پر جبر، مزدوری کی تفریق، اور عورت کے جسم کو سامانِ تجارت بنانا۔یہ سب محض سماجی برائیاں نہیں بلکہ طبقاتی سماج کے جبر کا تسلسل ہیں، جنہیں صرف ثقافتی اصلاحات یا قانونی اصلاحات سے نہیں، بلکہ ایک انقلابی ثقافتی و سیاسی تحریک سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماوزم عورتوں کو یہ شعور دیتا ہے کہ وہ محض مظلوم نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جنگ کی محور قوت ہیں .اس تحریک میں عورتیں بندوق اٹھا کر صرف دشمن کے خلاف نہیں لڑتیں، بلکہ اپنے اندر اور اپنے سماج میں موجود پدرشاہی سوچ کے خلاف بھی لڑتی ہیں۔ وہ روایتی گھریلو کرداروں سے نکل کر ایک نئے انقلابی وجود میں ڈھلتی ہیں۔ایسا وجود جو خودمختار ہو، باشعور ہو، اور تنظیمی و عسکری سطح پر قیادت کرنے کے قابل ہو۔ششی پرکاش ان عورتوں کی مثالیں دیتے ہیں جو ماؤسٹ پارٹیوں میں شامل ہو کر نہ صرف انقلابی جنگ میں شریک ہوئیں، بلکہ اپنے علاقوں میں تعلیم، صحت، انصاف، اور خواتین کی خودمختاری کے شعبوں میں عملی تبدیلیاں لائیں۔ ان کے مطابق یہ تحریک عورتوں کو وہ زبان، وہ تنظیم، اور وہ طاقت دیتی ہے جس سے وہ نہ صرف ظلم سے نجات حاصل کرتی ہیں بلکہ ایک نیا سماج تعمیر کرنے کی خالق بنتی ہیں۔مصنف کے نزدیک عورتوں کی حقیقی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف کام کریں یا تعلیم حاصل کریں، بلکہ وہ پیداوار، تنظیم، جنگ، اور شعور کے ہر محاذ پر قیادت کریں، اور سماج کو تبدیل کرنے والی قوت بنیں۔ ماؤازم عورت کی اس حیثیت کو تسلیم کرتا ہے، اور یہی بات اسے لبرل نسوانیت، پارلیمانی اصلاح پسندی، یا NGO طرز کے “خواتین پروگرامز” سے ممتاز کرتی ہے۔
ششی پرکاش کے مطابق نوجوان وہ طبقہ ہے جو ایک طرف تو سماجی جبر، تعلیمی محرومی، روزگار کی غیر یقینی، اور سرمایہ دارانہ اقدار کا براہِ راست شکار ہے، اور دوسری طرف یہی طبقہ انقلابی تبدیلی کا سب سے متحرک، باشعور اور بہادر حصہ بن سکتا ہے۔ ششی پرکاش طلبہ کو محض “تعلیم حاصل کرنے والے افراد” کے طور پر نہیں، بلکہ موجودہ نظام کے اندر ایک انقلابی امکان کے طور پر دیکھتے ہیں۔وہ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام نہ صرف طبقاتی ہے بلکہ سرمایہ دارانہ منڈی کا ایک جزو بن چکا ہے۔ تعلیم اب علم، شعور اور تحقیق کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ ایک “سرمایہ کاری” بن گئی ہے، جس میں صرف وہی کامیاب ہے جو اس مہنگی منڈی میں داخلے کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ ششی پرکاش کے مطابق یہ تعلیم نہ صرف مزدور طبقے کے بچوں کو شعور سے محروم رکھتی ہے بلکہ ان کے خوابوں، صلاحیتوں اور زندگی کے امکانات کو سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔
ایسے میں ماوازم ان نوجوانوں اور طلبہ کے لیے عمل، بغاوت، اور تعمیر کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ ماوازم اس نظریے کو مسترد کرتا ہے کہ نوجوان صرف پڑھنے، ڈگری لینے اور “اچھی نوکری” حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، ماوازم نوجوانوں کو سڑکوں، فیکٹریوں، دیہاتوں، مزدور بستیوں اور تعلیمی اداروں میں ایک انقلابی دستے کے طور پر تیار کرتا ہے ایسا دستہ جو سماج کے ہر مظلوم طبقے کے ساتھ جڑ کر ایک نئے معاشرے کی تعمیر کرے۔ آج کا نوجوان جسے بے روزگاری، فیسوں کے بوجھ، فاشزم، نسل پرستی، ماحولیاتی بحران، اور سماجی ناانصافی نے گھیر رکھا ہے، اگر وہ ان سب کے خلاف کوئی حقیقی متبادل ڈھونڈتا ہے، تو وہ متبادل ماوازم ہے۔ کیونکہ صرف ماوازم ہی ایک ایسا پروگرام پیش کرتا ہے جس میں نوجوانوں کو عوامی جدوجہد کا فعال حصہ بنایا جاتا ہے، جہاں وہ نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ عوام کے ساتھ مل کر انقلاب کی قیادت کرتے ہیں۔مصنف ماضی اور حال کی متعدد انقلابی تحریکوں کی مثالیں دیتے ہیں جہاں طلبہ نے مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ مل کر حکومتوں کو چیلنج کیا، سماجی ڈھانچوں کو ہلایا، اور ایک نیا سیاسی شعور پیدا کیا۔ نکسل باڑی کی تحریک ہو یا بھارت کی موجودہ ماؤسٹ تحریک، ہر جگہ طلبہ اور نوجوانوں نے نہ صرف عملی کردار ادا کیا بلکہ نظریاتی صفِ اول کا کردار بھی نبھایا ہے۔
ششی پرکاش کے مطابق وہ تمام نوجوان جو بے انصافی سے نفرت کرتے ہیں، جو تعلیمی نظام سے بیزار ہیں، جو دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں ان کے لیے ماوازم صرف ایک کتابی فلسفہ نہیں، بلکہ عمل کا راستہ ہے ایک ایسا راستہ جو یقین، تنظیم، قربانی اور جدوجہد سے بھرپور ہے، لیکن جو بالآخر ایک نئے غیر طبقاتی، غیر پدرشاہی، اور غیر سامراجی سماج کی طرف لے جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ششی پرکاش نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ماوازم کو محض مطالعے کا موضوع نہ بنائیں بلکہ اپنی زندگی کا راستہ بنائیں۔ کیونکہ ان کے مطابق، آج کی دنیا کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے ایک باشعور، منظم، نظریاتی اور پرعزم نوجوان نسل اور ماوازم ایسی نسل تیار کرنے کا واحد انقلابی راستہ ہے۔
ششی پرکاش اپنی کتاب Why Maoism میں ایک نہایت اہم نکتہ اٹھاتے ہیں جو ماوازم کو محض ایک سیاسی فلسفے سے آگے لے جاتا ہےوہ ہے انقلابی اخلاقیات اور تنظیمی ڈسپلن۔ ان کے نزدیک، اگر انقلاب کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہو، اور اس میں اخلاقی تطہیر، نظریاتی اخلاص، اور خود احتسابی شامل نہ ہو، تو ایسا انقلاب جلد ہی بگڑ جاتا ہے اور وہی استحصالی رویے دوبارہ جنم لے لیتے ہیں جن کے خلاف وہ برپا کیا گیا تھا۔مصنف زور دیتے ہیں کہ ماوازم ایک اخلاقی انقلاب بھی ہے ایسا انقلاب جو نہ صرف ریاست اور معیشت کو تبدیل کرتا ہے بلکہ انسان کی اندرونی ساخت، رویے، تعلقات، اور شعور کو بھی بدلتا ہے۔ اس کے لیے تنظیمی ڈسپلن اور اخلاقی تربیت لازمی شرط ہیں۔ ایک ماؤسٹ انقلابی کے لیے صرف نظریہ جاننا کافی نہیں، بلکہ اپنے عمل، رویے اور زندگی میں اس نظریے کا عکس پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماؤسٹ پارٹی محض ایک سیاسی جماعت نہیں، بلکہ ایک ایسی اخلاقی درسگاہ ہے جہاں ہر کیڈر، ہر رکن، خود کو مسلسل بہتر بنانے، خودغرضی سے لڑنے، اور عوام کے لیے بے لوث کام کرنے کی مشق کرتا ہے۔ ماؤ کی تعلیمات میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ”عوام کے لیے جیو، عوام سے سیکھو، اور خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرو۔”
ششی پرکاش ماوازم کی انقلابی اخلاقیات کے چار ستون بیان کرتے ہیں:
1. تنظیمی ڈسپلن: جہاں ہر رکن اجتماعی فیصلوں کو قبول کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر ذاتی اختلاف ہو، تو بھی تنظیمی اتفاقِ رائے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ جمہوری مرکزیت (Democratic Centralism) کی بنیاد ہے۔
2. عوام کے ساتھ خلوص: ماؤسٹ کیڈر اپنے آپ کو عوام کا “استاد” نہیں بلکہ “شاگرد” سمجھتے ہیں۔ وہ عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، ان سے سیکھتے ہیں، اور ان کی قیادت کے ذریعے جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہیں۔
3. خود احتسابی: ہر انقلابی کو مسلسل اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور تضادات پر نظر رکھنی چاہیے۔ پارٹی کے اندر تنقید و خود تنقید (Criticism and Self-Criticism) کا کلچر ماوازم کی بنیادوں میں سے ہے۔
4. کمیونزم پر یقین: صرف وقتی کامیابیوں کے بجائے، طویل مدتی انقلابی مقصد ایک کمیونسٹ سماج پر یقین رکھنا، اور اسی مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہنا، ماوازم کی روح ہے۔
ماوازم انفرادی فائدے، ذاتی شہرت، اور اقتدار کی خواہش کے خلاف ایک نظریاتی تربیت کا راستہ ہے۔ ایک ماؤسٹ پارٹی کا ہر فرد، عوام کے درمیان رہ کر، خود کو مسلسل “درست” کرتا ہے، اور ہر لمحہ یہ سوچتا ہے کہ “میں اپنی پارٹی، عوام اور انقلاب کے لیے بہتر کیسے بن سکتا ہوں۔” ششی پرکاش کی کتاب Why Maoism کا حاصلِ کلام نہایت واضح، دوٹوک اور انقلابی ہے: ہمیں ماوازم کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ دنیا کو بدلنے کا کوئی اور سنجیدہ، مؤثر اور ہمہ جہت راستہ باقی نہیں بچا۔مصنف بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں سرمایہ داری محض ایک معاشی نظام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر بحران بن چکی ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں مہنگائی، غربت، ماحولیاتی تباہی، جنگیں، نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی، عورتوں پر جبر، اور نوجوانوں کی مایوسی، ایک ایسے نظام کی علامتیں ہیں جو نہ صرف گل سڑ چکا ہے بلکہ اب انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ اس تباہ کن نظام کو جوں کا توں برقرار رکھنے میں سب سے بڑا کردار پارلیمانی سیاست، این جی اوز، اور لبرل فلاحی پالیسیوں کا ہے۔ جب تمام راستے بند ہوں،
جب تمام امیدیں ماند پڑ جائیں،
تب صرف وہی لوگ انقلاب لاتے ہیں
جو یقین رکھتے ہیں کہ
“نئی دنیا ممکن ہے— اگر ہم لڑیں!”
اگر تم سچ میں دنیا بدلنا چاہتے ہو، تو صرف نعرے نہیں، ماوزم کو سمجھو، اس پر عمل کرو، اور عوام کے ساتھ جڑ کر انقلاب کی راہ پر چلو۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ: کاروان ماوازم

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply