قوانین بنانے، اعلان کرنے یا تختیاں لگوانے کی خواہش پورے خواب اور نصف تعبیر کے طور پر ادھورے کٹے پھٹے منظر اور عقل و فہم سے عاری مرید تخلیق کرتی ہے۔ دراصل فی زمانا نیکیاں کرنے سے زیادہ اہم نیکیاں دکھانے کا شوق غالب ہے۔ تول میں پورا لکھ کر ترازو کے ایک پلڑے میں باٹ چپکایا جاتا ہے۔ کلو کے ڈبے میں تین پاؤ مٹھائی لینے والے گاہک اور دس ہزار کی خریداری پر پچاس روپے کا لفافہ بیچنے والے دوکاندار تجارت و کاروبار میں بھی “کاروکاری” کر گزرتے ہیں اور اقدار کی نشانیاں سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔
اپنے قول و عمل کو نادیدہ نجس ٹیٹوز کے رنگوں میں لپیٹے یہ ہجوم ہر عمل میں جگاڑ کا عادی ہے۔ ہم دعا لکھ کر دغا کرنے والی فلٹر زدہ قوم بن چکے ہیں۔ ایسے ہی تمام محکمہ جات پر مصنوعی ٹیگ چسپاں کیے جاتے ہیں۔ اس کی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں چٹیل میدان، کوڑا گھر یا منہدم دیواروں پر بڑے بڑے منصوبوں کی تختیاں اور قبرستان، پھل فروٹ کی ریڑھیوں اور لوکل ویگنوں و رکشوں پر حکمرانوں کی تصاویر نصب ہیں۔
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ذکر ہے برکت مارکیٹ میں واقع پاسپورٹ آفس کا۔ جس پر درج ہے کہ یہ دفتر 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ ہم کوئی قریباََ 10 بجے وہاں پہنچے تو زیادہ رش نہیں تھا۔ تھوڑے سے لوگ تھے۔ زیادہ تر خواتین بچوں کے ساتھ تھیں۔ ساڑھے دس سے بارہ چالیس تک دو گھنٹے دس منٹ لگاتار آفس کا دروازہ بند رہا۔ بچے تھکن سے بے حال۔ لوگ اوزار۔ پہلے 45 منٹ تو ریکارڈ شدہ بلند آواز نے سر درد لگا رکھی۔ پہلے گھنٹے کے بعد گارڈ تک نظر نہیں آئے۔ تفصیل یہ ہے کہ 24 گھنٹے سروس دینے والے پاسپورٹ آفس میں بیوٹی پارلر سے بھی کم عملہ ہے۔ رات ایک بجے گارڈ کو ہی کلرک کا کام بھی تفویض کیا جاتا ہے۔
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
(فانی بدایونی)
واش روم گندے ترین۔ صفائی پر کوئی ملازم مامور نہیں۔ پاسپورٹ آفس کی انتظار گاہ ایسے ہی ہے جیسے سڑک کنارے پر بیٹھ جائیں۔ دو تین گھنٹے میں چائے، کافی کا سٹال تو ہونا چاہیے۔ آفس کے اندر ہال میں نصب کرسیاں تھرڈ کلاس بس سٹینڈ کی آرام گاہ میں رکھی کرسیوں سے بھی زیادہ گندی اور داغ دار ہیں۔ شفٹ کی تبدیلی میں دو گھنٹے لوگ خوار ہوتے رہے۔ دو چار لوگوں کے جگہ تبدیل کرنے میں وقت کے اس ضیاع سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمیں کسی سطح پر بھی وقت کی قدروقیمت کا احساس تک نہیں۔ ہم اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی کارکردگی کی ایڈورٹئزنگ کے لیے ایک لمحہ یا اینٹ ضائع کرنے کا حوصلہ نہیں۔
عیادت کو مری آ کر وہ یہ تاکید کرتے ہیں
تجھے ہم مار ڈالیں گے نہیں تو جلد اچھا ہو
(داغؔ دہلوی)
قیمت انصاف برائے پچھتر لاکھ کی شعلوں سے سلگتی تصویر اور ہر روز انسانیت سوز مظالم معمول کی بات بن چکے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے ناواقف مہرے ہیں۔ جنھیں چکوال کے ظلم و بربریت کی خبریں بی بی سی پر ملتی ہیں۔ انصاف نزع کے عالم میں ہے اور ٹک ٹاکرز کے “ٹوٹے” ہر وال پر برائے فروخت عام ہیں۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے۔ جہاں چلے جائیں وہ دفتر ہو یا بینک، سسٹم بیٹھا ہوا ملتا ہے یا شاید ضعف کے باعث خود ہی بیٹھ جاتا ہے۔
یہ بھی طے ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی سسٹم شرم سے نہیں بیٹھتا۔ اسے وہ چلو بھی بھر پانی میسر نہیں جس کا تعلق دکھ درد کے آنسوؤں کے ساتھ ہے۔ دعا کے اڑان پر بدعت و فسطائیت کی بلاسفیمی کا قبضہ ہے اور دعا و یقین کے پر نیم ملائیت کے جھوٹے قصوں نے کاٹ رکھے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مجہول عالموں کے سامنے بیٹھے مجمع کو ریسکیو (rescue) کروایا جائے۔ لیکن افسوس بنام کوئےملامت:
رواروی میں ہم اپنی نسلوں کی کاشت کرنے میں ہی مگن ہیں
ہم ان تماشوں سے تھک گئے ہیں مگر مداری بھی کم نہیں ہیں
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ری سائیکلنگ کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے۔ بورڈ، یونیورسٹی کے پیپرز بہت سے بچے صرف نام لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یا پھر صرف ایک دو صفحات ہی استعمال کرتے ہیں جو سب ردی میں جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ پاسپورٹ پر صرف ایک ویزہ لگواتے ہیں۔ باقی صفحات بالکل ضائع ہو جاتے ہیں۔ پاسپورٹ کا کاغذ ویسے بھی بہت مہنگا ہے۔ ایسی کوئی صورت کیوں نہیں نکالی جا سکتی جس میں موقع پر ہی ایسے پاسپورٹ ری نیو (renew)کر دیے جائیں یا ان پر درج تاریخ بڑھا (extend) دی جائے۔
فیس وصولی کے بعد کاغذ کی بچت، موقع پر فوری سہولت کی فراہمی سے یقینی طور پر رش میں کمی آئے گی۔ دوسری بات کہ وہ عوامی دفاتر جو 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ وہاں عملہ زیادہ تعینات کیا جائے۔ تاکہ سہولیات کی فراہمی کا عمل خوش گوار بنایا جا سکے۔ ہر محکمہ اور ہر دفتر کو عدالت نہ بنایا جائے۔ انصاف کو کارکردگی کی ڈریس کی اشد ضرورت ہے۔ ملازم نکالنے اور محکمہ جات خالی کرنے سے کہیں زیادہ اہم تربیت کا اہتمام ہے۔ جس میں شاہ و گدا ایک ہی صف میں دھکم پیل کے عادی ہو چکے ہیں۔ بقول فیض
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

بشکریہ روزنامہ پاکستان
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں