انڈیا پاکستان کے درمیان ہونے والی ماضی کی چھوٹی بڑی اتنی جنگوں کے باوجود بھی سندھ طاس معاہدہ کبھی معطل نہیں کیا گیا تھا جو اب گزشتہ کل کے پہلگام واقعے کے بعد آج فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے۔
معائدے کی یہ معطلی پر آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تناو میں اتنا اضافہ کرسکتی ہے کہ آپ پہلگام واقعے کو بھول جائیں گے کیونکہ سانجھے دریاوں کے پانی کا معاملہ پاکستان کی قومی سلامتی اور بقا کا مسئلہ ہے۔
1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سانجھے دریاوں کی پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے میں کارگر ثابت ہوا تھا اور کم ازکم پانی کے معاملے پر دونوں رقیب کسی بڑے جھگڑے سے بچے رہے ہیں لیکن اب حالات بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
انڈیا کا پیغام واضح ہے کہ وہ پاکستان کو دباو میں لانا چاہتا ہے اور پاکستان کی طرف سے دی گئی تجویز کہ “اس معاملے کو عالمی بینک کے مقرر کردہ کسی غیر جانبدار ماہر یا اس معاملے پر عالمی بینک کی طرف سے 2015 میں قائم کی گئی عدالت کے ذریعے حل کیا جائے” کو بھی نہیں مانتا۔
ہندوستانی وفاقی وزیر برائے پانی مسٹر گجندرا سنگھ شیخاوت نے جب اپریل 2019 میں یہ بیان دیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ انڈیا پانی کے مسئلے کو پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بطور دباو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اس سے پہلے ستمبر 2016 میں ہندوستانی وزیرِاعظم نریندرا مودی بھی یہ کہہ چکے تھے کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہتا ہے اور یہ خُون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کی وجہ سے سندھ کے طاس میں بہنے والے دریاوں میں پہلے ہی پانچ سے بیس فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ حالیہ ریسرچ بتاتی ہے کہ چناب کے کیچمنٹ کا برف سے ڈھکا علاقہ تیزی سے کم ہورہا ہے جس کی وجہ سے چناب میں معمول کا بہاؤ بہت کم ہو سکتا ہے۔
انڈیا کی طرف سے چناب اور جہلم پپر رن آف رِور کے نام پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگا کر پہلے ہی ڈھائی لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی اسٹوریج کر لیا جاتا ہے جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اب انڈیا نے سندھ طاس کے معاہدے کے تحت پاکستانی دریاوں (مشرقی دریاوں)کے پانی پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
جب ہمیں سردیوں میں پانی کی ضرورت ہو تو انڈیا ذخیرہ کرلے گا اور عارضی خشک سالی پیدا کردے گا اور جب مون سون میں ہمیں پانی کی ضرورت نہ ہو تو یہ ڈھائی لاکھ ایکڑ فٹ ذخیرہ شدہ پانی چھوڑ کر معمول سے زیادہ سیلابی تباہی پہنچا دےگا۔ یعنی پاکستان کی طرف بہنے والے نل پر اپنی ٹوٹی لگا دی ہے۔ منگلا ڈیم میں پہلے ہی پچھلے دس سالوں کی کم ترین اسٹوریج ہے۔
دوسری طرف مشرقی دریاوں کا سارا پانی موڑ لیا گیا ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدہ یہ بالکل نہیں کہتا کہ آپ انسانی ضروریات اور آبی و نباتاتی مخلوقات کی حیات کے لئے پانی بھی نہ چھوڑیں۔
انڈیا کے اقدامات سے چار دریاوں کا پانی روکنے سے نہ صرف ایک پوری تہذیب کے مٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے بلکہ پاکستان کی آبادی میں بے تحاشا اضافے سے پاکستان کی پانی کی ضروریات بھی بہت بڑھ چکیں۔

پانی کی کمی پاکستان کے لئے قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ملک کی زراعت اور توانائی کی ساری ضروریات کا انحصار انہی دریاوں کے پانی پر ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی دونوں ممالک کے درمیان ایک اور بڑے جھگڑے کو شروع کر سکتی ہے کیونکہ مستقبل میں انڈیا تیزی سے نئے ڈیم تعمیر کرکے ان دریاوں کا سارا پانی اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں