قیصر شریف کی رخصتی/نجم ولی خان

اگر معمول میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی میں کسی بھی عہدیدار کی رخصتی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ قیصر شریف، جمعیت سے جماعت میں آئے اور اسلامی جمعیت طلبا واحد طلبہ تنظیم ہے جس میں جمہوریت موجود ہے، جس کے عہدیدار ہر برس، دوبرس بعد بدل جاتے ہیں جبکہ باقی تمام طلبا تنظیموں کے عہدیدار ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو پچاس، ساٹھ برس عمر کے ہوچکے ہیں لیکن یہ غیر معمولی صورتحال ہے جو قیصر شریف کے جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے رخصت ہونے سے برپا ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے اور ہر صحافی اپنے انداز میں احتجاج کر رہا ہے۔ اس وقت جو ہنگامہ برپا ہے وہ قاضی حسین احمد جیسے متحرک امیرکے انتخابات سے دستبردار ہونے یا سید منور حسن جیسے سٹنگ امیر کے پہلی مرتبہ انتخاب ہارنے پربھی برپا نہیں ہوا تھا۔
ہمارے ایک صحافی بھائی محسن بلال نے تو مولانافضل الرحمان کی منصورہ یاترا کے دوران پریس کانفرنس میں پہلا سوال قیصر شریف پر کر دیا جس پر وہ ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں امیر جماعت اسلامی انجینئر نعیم الرحمان سوال کو نان پروفیشنل قرار دے رہے ہیں۔ یہ بات عجیب ہے کہ اگر ہم مریم نواز کے متحرک ہونے اور حمزہ شہباز کے کھڈے لائن لگنے پر سوال کریں تو یہ عین پروفیشنل ہے، ایسے سوال اگر پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی سے ہوجائیں تو آزادی صحافت اور جماعت اسلامی سے ہوجائیں تو نان پروفیشنل، اندرونی معاملہ۔اگر آپ ایک سیاسی جماعت ہیں ، آپ نے عوام سے ووٹ لینے اور تجزیہ نگاروں سے حمایت لینی ہے تو پھر سوال تو ہوں گے۔ قیصر شریف کی بطور سیکرٹری اطلاعات رخصتی ہوئی ہے مگر اطلاعات کے مطابق ابھی تک وہ نشرواشاعت کا ہی حصہ ہیں یعنی جس شعبے کو وہ لیڈ کرتے رہے اب اس میں ہی کارکن کے طور پر موجود ہوں گے۔ جماعت اسلامی والے اسے اسلامی تاریخ کے حوالوں سے جسٹیفائی کرسکتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے ایک بڑے اور قابل جرنیل کو سپہ سالاری سے ہٹا کے گھوڑوں کی دیکھ بھال پر لگا دیا تھا اور انہوں نے وہ ڈیوٹی کی تھی ۔
ہم صحافیوں کے لئے سیکرٹری اطلاعات بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ پارٹی اور میڈیا کے درمیان پُل کا کردارادا کرتے ہیں۔ ایک اچھا سیکرٹری اطلاعات ہمیشہ اپنی پارٹی کی قیادت اور مؤقف کو میڈیا تک پہنچانے میں کردارادا کرتا ہے۔ ہمارے پاس کچھ ایسے سیکرٹری اطلاعات بھی موجود رہے ( اور ہیں) جن کے ذریعے ہمیں ان کی پارٹیوں کی لیڈر شپ تک پہنچنا تو ایک طرف رہا ہم خود ان تک نہیں پہنچ پاتے تھے ( اورنہ پہنچ پاتے ہیں)۔ یہ صحافت بھی عجیب وغریب شے ہے یا الیکٹرانک میڈیاآنے کے بعد ہو گئی ہے کہ ہم صحافی کسی بڑے سیاسی رہنما کے گھر کے باہر اپنی اپنی ڈی ایس این جیز کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، سڑک پرآنے جانے والوں پر نظر رکھ رہے ہوتے ہیں اور کسی کا فون آجائے تو اسے بتاتے ہیں کہ ہم فلاں لیڈر کے گھر فلاں اجلاس میں موجود ہیں، بہرحال، یہ بحث پھر سہی ایسے میں ایک سیکرٹری اطلاعات جو دستیاب ہو، عزت اور سہولت دے رہا ہو، ایک تحفے اور ایک نعمت کی طرح ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کے اس سے پہلے جو مشہور و معروف سیکرٹری اطلاعات رہے ان میں برادر امیر العظیم کے علاوہ صفدر چوہدری مرحوم اور انور نیازی مرحوم یاد ہیں، قسم لے لیجئے، کیا خوبصورت اور شاندار شخصیات تھیں۔ صفدر چوہدری کی مٹھاس شوگر کر دیتی تھی اور انور نیازی کی کٹھاس کا اپنا مزا تھا، ان سے ملنا ایسے ہوتا تھا جیسے آپ اپنے کسی بھائی ، بزرگ سے مل رہے ہوں۔ ویسے ایک بات ماننی پڑے گی کہ آپ جماعت اسلامی کی سیاست اور مؤقف سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر جماعت اسلامی والوں کے اخلاق سے نہیں۔کسی بھی پارٹی یا ادارے کی اطلاعات کی ذمے داری بہت نازک ہوتی ہے۔اس میں آپ نے صحافیوں کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے اور مالکان کو بھی۔ یہ دس کلو مینڈک تولنے والی ذمے داری ہے کہ آٹھ کلو ہونے پر مزید دو کلو ترازو میں ڈال کے پورے کرتے ہیں توتین کلو ترازو سے باہر چھلانگیں لگا چکے ہوتے ہیں اورآپ انہیں پکڑ نے میں لگ جاتے ہیں۔ قیصر شریف طویل عرصہ تمام مینڈک بہت مہارت اور حوصلے سے پکڑتے رہے، ذمے داری نہیں شوق سمجھتے رہے۔ قیصر شریف سے صرف میڈیا مالکان اوربیٹ رپورٹرز ہی نہیں ،میڈیا ہاوسز کے این ایل ایز سے گارڈز تک بھی اچھی طرح واقف تھے۔ بھائی صاحب نے رپورٹروں، اینکروں، پروڈیوسروں سمیت ہر شعبے کے میڈیا ورکرز کو سالگرہ پر کیک بھجوانے شروع کئے، میں جانتا ہوں انہوں نے یہ کام پہلے اپنی جیب سے شروع کیا اور پھر شعبہ نشرواشاعت منصورہ نے اسے سنبھال لیا۔ قیصر شریف کی کنٹیکٹ لسٹ اتنی بڑی تھی کہ بہت ساری خواتین اینکرز کا مجھے بھی اس وقت پتا چلا جب انہوں نے اپنی پروفائلز پر قیصر شریف کے بھیجے ہوئے کیک کی تصویریں لگائیں اور شکریہ ادا کیا۔ ہمارے کچھ دوست اسے رشوت کہہ رہے ہیں، کتنے معصوم ہیں، وہ کیا جانیں کہ رشوت کیا ہوتی ہے۔ سال میں دو تین ہزار کا کیک آجانا عزت ، محبت اور خوشی تو ہوسکتی ہے رشوت نہیں۔ رشوتیں لینے والے صحافی تو کروڑ پتی ہوگئے، ارب پتی ہو گئے، امریکہ برطانیہ پہنچ گئے۔
چھوٹے بھائی بدرسعید نے درست لکھا کہ بات صرف کیک تک کی نہیں ہے۔ قیصر شریف ہر خوشی غمی میں شریک ہوتا تھا اور مجھے اس کی جو خوبی سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے وہ نہ جھگڑنے کی ہے۔ آپ اس سے اختلاف کر لو یہ دلیل بازی نہیں کرے گا۔ مجھے انجینئر نعییم الرحمان کی حلف برداری میں بلایا گیا اوراس کے بعد میں نے جو کالم لکھا وہ شائد جماعت کے کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا حالانکہ میں نے وہی لکھا جو مجھے لکھنا چاہیے تھا مگر قیصر شریف نے ہرگز مجھ سے جھگڑا نہیں کیا بس خاموشی سے اس کے بعد انجینئر صاحب کی طرف سے دئیے گئے کسی کھانے پر نہیں بلایا اور جس میں بلایا تھا اس کاوقت تبدیل ہونے کا بہانہ بنا دیا مگر وہ اپنے سوشل میڈیا ہیڈ جیسا نہیں بنا۔ جماعت کی روایات کو سمجھنے والے شکیل ترابی صاحب کے لئے دعا گو ہیں او ر میں بھی ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے ایک بہت مشکل ٹاسک اپنے ذمے لے لیا ہے یا اسے قیصر شریف اپنی محنت اور خلوص زیادہ مشکل بنا گئے ہیں۔
ویسے بصد احترام ایک سوال کروں ، جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ قیصر شریف کیک وغیرہ دیتے رہے مگر جماعت کو سوشل میڈیا کی مقبولیت اور عوامی سطح پر قبولیت نہ دلوا سکے تو کیا یہ ذمے داری صرف اس غریب کی تھی یا سید منور حسن، سراج الحق اور خود حافظ نعیم الرحمان جیسے امیروں کی تھی۔ یہ تو صرف پیش کار تھے۔ مجھے نوے کی دہائی میں ضیاء شاہد مرحوم کے ساتھ دارالضیافہ میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ایک آف دی ریکارڈ گپ شپ یاد آ گئی جس میں خودمرد مجاہد قاضی حسین احمد پوچھ رہے تھے کہ لوگ کرپشن سے پاک اور بہادر لیڈر شپ مانگتے ہیں تو انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ یہ سوال آج بھی اسی طرح موجودہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply