کچھ لوگ ہمارے محسن ہوتے ہیں انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھتے رہنا چاہئیے ۔ انسانیت کا پرچار کرنے والے لوگ ، مسیحا کا روپ دھارے خدمت کرتے لوگ ، علم بانٹنے والے لوگ ، یہ سب محسن کہلاتے ہیں۔ انھیں ہمیشہ ہر جگہ، ہر محفل ، ہر تقریب میں یاد رکھنا چاہئیے اور ان کا احساس دلاتے رہنا چاہئیے کہ یہی وہ مہان لوگ ہیں جو دوسروں کے لئیے ہمشہ سائبان فراہم کرتے ہیں اور اپنی زندگی نشیب و فراز کے حوالے کر دیتے ہیں ۔
میں شخصیت پرستی کا بالکل بھی قائل نہیں اور نا ہی چاپلوسی پسند کرتا ہوں لیکن ہر اس شخص کا پرچار کرتا ہوں جو لوگوں کے لئیے تاثیر مسیحائی ہو جو اپنے دکھ درد چھوڑ کر دوسروں کا مداوا کرنے نکلے ہم ایسے لوگوں کے پرستار ہیں اور انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھتے ہیں۔
میں صحت عامہ سے جڑا شخص ہوں اور اکثر اوقات ان ڈاکٹر حضرات پر لکھنے کی جسارت کرتا رہتا ہوں جنھیں میں بہت قریب سے جانتا ہوں اور ان کے بارے میں پل پل کی خبر رکھتا ہوں ۔ میرے نزدیک تمام ڈاکٹر بہت ہی قابل احترام ہیں، لیکن کچھ لوگ اپنا اک الگ اور مختلف مقام رکھتے ہیں نہ چاھتے ہوئے بھی ان پر قلم کو جنبش دینی پڑتی ہے۔
انھیں لوگوں میں اک شخص ڈاکٹر صادق میمن صاحب بھی ہیں جن کی معترف اک دنیا ہے ڈاکٹر صادق بہت ہی پیارے اور ملنسار شخصیت ہیں ان پر لکھنا میرے لئیے کسی سعادت سے کم نہیں، اس سے پہلے بھی کافی دفعہ لکھ چکا ہوں ، لیکن ہر بار اک نئی راحت محسوس ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر صادق صاحب شعبے کے اعتبار سے جگر و معدے کے اسپیشلسٹ ہیں اور غالباً سنہ 2003 سے حیدرآباد شہر میں خود کو مریضوں کے لئیے وقف کئیے رکھا ہے اور صرف حیدرآباد ہی نہیں بلکہ سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے مریض جوک در جوک ڈاکٹر صاحب کے پاس علاج کرانے آتے ہیں ، مریضوں کی اک بڑی تعداد ڈاکٹرصادق کے ہاتھوں شفایاب ہوچکی ہے جس میں اک بہت بڑی تعداد ہیپاٹائٹس بی سی کے مریضوں کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے اسی کام کی بدولت آج ڈاکٹر صاحب کے شاگرد پورے سندھ میں مریضوں کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں یہ سہرا ڈاکٹر صادق کے سر ہی جاتا ہے۔
سر کی سب سے اچھی بات جو مجھ کو ہمیشہ متاثر کرتی نظر آئی وہ اپنے علم کی دولت کو بانٹنا ہے،چاہے وہ شاگرد ہوں یا باہر سے سیکھنے کے لئیے آئے مہمان سب کے لئیے اپنا علم کھول کر رکھ دیا۔ یہ سخاوت بھی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے خود کو مریضوں تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ اپنے علم کو مزید وسعت دی مقالے لکھے تحقیق کی۔ لوگوں کو آگہی دی شعور دیا ہر اس بیماری کے حوالے سے جس کے بارے میں عوام کا علم نہ ہونے کے برابر تھا عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئیے کئی ادارئیے لکھے گاؤں گاؤں قریہ قریہ جاکر لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی سی اور ایڈز کے بارے میں جانکاری دی لوگوں کو بتایا کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ۔
ڈاکٹر صاحب صرف یہیں تک محدود نہ رہے بلکہ مریضوں کو جگر کی پیوند کاری تک رسائی دی جب پاکستان میں دور دور تک لیور ٹرانسپلانٹ کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا اس وقت بھی جگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کو امید کی اک کرن دکھائی اور انھیں اپنے پڑوسی ملک انڈیا لیور ٹرانسپلانٹ کے علاج کے لئیے روانہ کیا، یہ اتنا آسان نہ تھا اس کے لئیے مریض کو تمام فائدے اور نقصان کے بارے میں آگاہی دینا رشتے داروں کو بھی ہر طریقے سے قائل کرنا اور جو شخص جگر کا عطیہ دینے لگا ہے اسے بھی نقصان اور فائدے کے بارے میں آگہی دینا۔ سب سے اہم ایشو مریض اور عطیہ دینے والے کو انڈیا کے لئیے تیار کرنا ان کا پاسپورٹ سفری دستاویز ان تمام چیلنجز سے بھی ڈاکٹر صادق کو نبرد آزما ہونا پڑتا۔
ڈاکٹر صادق صاحب نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جن مریضوں کو انڈیا بھیجا گیا جگر کی پیوندکاری کے لئیے جب وہ شفایاب ہوکر واپس آئے تو ان کو یہاں Follow up بھی دینا تھا مطلب پوسٹ لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کے لئیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟ اس کے لئیے بھی ڈاکٹر صاحب نے انڈیا سے لیور ٹرانسپلانٹ سرجن اور ان سے جڑے دوسرے ڈاکٹرز حضرات کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور یہاں ان مریضوں تک رسائی دی گئی جو لیور ٹرانسپلانٹ کرا چکے تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صادق نے اپنے کچھ شاگردوں کو بھی انڈیا بھیجا لیور ٹرانسپلانٹ کے بارے میں تربیت کے لئیے تاکہ آئندہ وہ مریضوں کو لیور ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے آگہی دے سکے، یہ اک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی حیدرآباد والوں کے لئیے ،،،
یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر صادق صاحب کا عروج تھا اور پورے سندھ میں ڈاکٹر صاحب کا طوطی بولتا تھا ، ڈاکٹر صادق کی انتھک محنت پر شک نہیں کیا جاسکتا انھوں نے بیمار لوگوں کے چہروں پر جو روشنیاں بکھیریں وہ سب کے سامنے ہے۔
ڈاکٹر صادق کی سب سے بڑی خواہش اپنے ادارے ایشین انسٹیٹیوٹ کو اس مقام تک پہنچانا کہ لوگ برملا اعتراف کریں کہ کوئی ادارہ ہے جس نے مریضوں کو ان علاج تک رسائی دی جو اس وقت پاکستان میں ناممکن نظر آتی تھی، اور ڈاکٹر صاحب نے کر کے بھی دکھایا ۔
ایشین انسٹیٹیوٹ کو جو عروج ڈاکٹر صادق صاحب نے دیا وہ سب نے دیکھا ڈاکٹر صادق نے ادارے کے لئیے انتھک محنت کی ادارے کے لئیے وہ کچھ ممکن بنایا جو دوسرے اداروں کے لئیے بہت مشکل تھا۔ ڈاکٹر صادق صاحب کی خواہش تھی کہ اس ادارے میں جگر کی پیوند کاری جیسے سرجری کو ممکن بنایا جاسکے ، لیکن بہت سی وجوہات کی بناء پر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ، لیکن ڈاکٹر صادق کا حوصلہ پہاڑ جیسا ہے وہ اس چوٹی کو بھی اک دن ضرور سر کر لینگے۔
سر کے ساتھ میرا تعلق 2007 سے 2022 تک رہا اس کے بعد میں نے ایشین کو خیر باد کہہ دیا لیکن اس عرصے میں سر کے ساتھ جو وقت گزرا وہ دلچسپی سے خالی نہیں ۔ سر کو اگر جادوئی شخصیت کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اک ایسی طلسماتی شخصیت جس نے ہر آنے والے مریض کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا مجال ہیکہ مریض اس ادارے میں کسی اور ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی مریض بغیر تشخیص کے لوٹا ہو میں نے ایسے ان گنت مریض ڈاکٹر صاحب کو دئیے جو دوسرے اداروں سے مایوس لوٹے تھے، لیکن سر سے مرض کی تشخیص ہونے کے بعد ان کا علاج ہوا اور تندرست و توانا گھر کو لوٹے ۔
آج بھی جب سر سے ملاقات ہوتی ہے ویسے ہی ہشاش بشاش نظر آتے ہیں ، اگر چہ ابھی حال ہی میں سر اک بہت بڑے حادثے سے دو چار ہوئے ہیں ان کی اک جواں سالہ بیٹی کا انتقال ہوا جو اک بہت بڑا صدمہ ہے سر کے لئیے۔ سر کا اک جواں سالہ بیٹا بھی عین جوانی میں اک ایسی بیماری کا شکار ہوئے جس نے اس نوجوان کو ہمیشہ کے لئیے اپاہج کردیا ۔اولاد کا صدمہ انسان نہیں سہہ سکتا یہ اک ایسا دکھ ہے جو انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کی اولاد کو صحت والی زندگی دے،
بہر حال سر کو ہمیشہ چاک وچوبند دیکھا کبھی اپنے دکھوں کو ظاہر نہیں ہونے دیا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے یہ انساں ہمیشہ دوسروں کے لئیے سائباں فراہم کرتے ہیں ایسے مرد قلندر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، سے مرض کی تشخیص ہونے کے بعد ان کا علاج ہوا اور تندرست و توانا گھر کو لوٹے ۔
آج بھی جب سر سے ملاقات ہوتی ہے ویسے ہی ہشاش بشاش نظر آتے ہیں ، اگر چہ ابھی حال ہی میں سر اک بہت بڑے حادثے سے دو چار ہوئے ہیں ان کی اک جواں سالہ بیٹی کا انتقال ہوا جو اک بہت بڑا صدمہ ہے سر کے لئیے۔ سر کا اک جواں سالہ بیٹا بھی عین جوانی میں اک ایسی بیماری کا شکار ہوئے جس نے اس نوجوان کو ہمیشہ کے لئیے اپاہج کردیا ۔اولاد کا صدمہ انسان نہیں سہہ سکتا یہ اک ایسا دکھ ہے جو انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کی اولاد کو صحت والی زندگی دے،
بہر حال سر کو ہمیشہ چاک وچوبند دیکھا کبھی اپنے دکھوں کو ظاہر نہیں ہونے دیا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے یہ انساں ہمیشہ دوسروں کے لئیے سائباں فراہم کرتے ہیں ایسے مرد قلندر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں