وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
خبریں بریک کرنے والے خاموش ہوچلے اور خاکے لکھنے والے بھی۔ اخبارات اور ٹی وی والوں کے پاس اور بہت کچھ ہے۔ ایسے میں نوحہ یا مرثیہ لکھا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے میر دبیر و میر انیس کی قادر الکلامی کو کہاں سے لائیں؟ ایسے میں مَیں کیا کر رہا ہوں ؟ اور سب سے اہم کہ کیوں کر رہا ہوں؟ سچ پوچھیں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں۔
بس رات کا پچھلا پہر تھا اور میں اس شخص کی تلاش میں تھا جو عمر میں مُجھ سے بڑا ہو جس کے کندھے سے لگ کر آنسو بہاؤں اور وہ مجھے تسلی دے یا کوئی میرے پاس آتا اور کندھے سے لگ کر روتا اور میں اُس کے سر کو سینے سے لگا کر تسلی دیتا۔ صرف ایک فون آیا وہ بھی دور درازخانیوال سے ڈاکٹر سرور حیات صاحب کا اور اُس کے بعد ایک خاموشی، گہری اور سرد۔۔۔
میرا ذہن انتیس برس پیچھے چلا گیا۔۔۔
خبر ملی کہ خرم بھائی نے راستہ جدا کر لیا۔ یا اللہ اب کیا کروں ، کس کے پاس جاؤں؟ ایک منٹ کے اندر لپک کر راؤ اختر صاحب کو فون کر دیا کہ میں خورشید بھائی سے ملنے آ رہا ہوں، وقت لے لو۔ جواب کا انتظار کئے بغیر آئی پی ایس پہنچا۔ راؤ صاحب کو دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ مجھے گلے لگایا اور اندر خورشید بھائی کے پاس پہنچا دیا۔ خورشید بھائی۔۔۔جی وہی جو دوسروں کے لئے پروفیسر خورشید احمد تھے۔۔۔نے کمال شفقت سے گلے لگایا ۔ میری قوت گوئی سلب ہو چکی تھی۔۔۔
۔۔۔اور جب میں بولا تو پہلا جملہ میرے منہ سے نکلا، ’’اب ترجمان القرآن‘‘ کا کیا ہوگا؟ ہمیشہ ہی غلط سوال کرتا آیا ہوں، زندگی انھی بے تکے سوالات میں گزر گئی۔ کم بخت دماغ میں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ترجمان کا محافظ تو سامنے بیٹھا ہے۔ جواب ملا کہ’’ اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا، یہ لیں چائے پی لیں۔‘‘ دن کو چائے لینے کا عادی نہیں ہوں مگر اُس دن خورشید بھائی کے ساتھ چائےپی۔ ۔۔
اب اتنے برس گزر گئے۔ ہم نفس ہی نہیں ہم عمر بھی ساتھ چھوڑ گئے تویہ سوچنا ہی حماقت ہے کہ میں کسی کے پاس جا سکتا ہوں یا کوئی میرے پاس آ سکتا ہے۔ کوئی آخر آ بھی کیسے سکتا ہے جب اسے یہ علم ہی نہیں میرا کوئی ذاتی نقصان ہوا ہے ۔۔۔
میرا اُن سے تعلق کوئی 1966 سے تھا ، ( یا ہے)۔ وہ اور ڈاکٹر ممتاز احمد جب ’چراغ راہ ‘ میں تھے تو ہم جیسے لوگ ترجمان القرآن کے علاوہ چراغ راہ کی راہ تکا کرتے تھے۔ میرے ریکارڈ میں خورشید بھائی کا جو پہلا خط محفوظ ہے وہ 1967 کا ہے۔ ۔۔پھر چل سو چل۔۔۔1988 کے بعد خط و کتابت کے علاوہ درجنوں نہیں بیسیوں ملاقاتیں رہیں۔ ایک دفعہ میں نے عبدالرشید ترابی صاحب سے ذکر کیا کسی دن اسمبلی کے اجلاس میں چل کر دیکھتے ہیں کہ وہاں بحث ومباحث اور قانون سازی کا عمل کن کن مراحل اور کیسے سرانجام دیا جاتا ہے۔ خورشید بھائی اُن دنوں سینیٹر تھے۔ انھوں نے کہا اسمبلی میں تو نہیں سینیٹ کے اجلاس میں چلتے ہیں، وہاں اسمبلی کی نسبت زیادہ سیکھنے کو ملے گا۔
پہلی مرتبہ عالیشان عمارت اور سیٹوں کے معیار کو دیکھا تو دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ ماشاءاللہ کیا بات ہے ہمارے ملک کی! اجلاس شروع ہوا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔تو تکار،شور شرابے اور آرڈر، آرڈر کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیا۔ ترابی صاحب کی طرف دیکھا، انھوں نے میری طرف نگاہ کی مگر کہا کچھ نہیں۔ اجلاس کے بعد خورشید بھائی سے اس ہنگامہ ہائے ہو ہا کے بارے میں پوچھا تو کہا ’’ آپ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے عادی ہیں۔ شکر ہے اسمبلی کی کارروائی نہیں دیکھی۔‘‘
میری پہلی کتاب ’’اشاریہ افکار مودودی‘‘ انھی کے ادارے آئی پی ایس نے شائع کی اور مقدمہ انھی کے قلم سے نکلا۔ سود کے موضوع پر میری کتاب پر مقدمہ لکھنے کے لئے کہا تو انھوں کہا مسودہ بھجوا دیں۔ مسودہ انھیں دیا تو کتاب پر مقدمہ لکھنے سے صاف انکار کر دیا کہ انھیں میری تعبیر سے شدید اختلاف ہے ۔ کتاب تو ان کے قیمتی الفاظ سے محروم ہو گئی مگر جب شائع ہوئی تو مجھے حیا آئی کہ ان تک کتاب پہنچاؤں۔ ایک دو ماہ کے بعد شادی کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی۔ میں ابھی اُن سےملنے کے لئے اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ وہ میری طرف چلے آئے۔ مجھے دیکھتے ہوئے کہا: ’’ کتاب آپ نے تو نہیں دی لیکن مجھ تک پہنچ گئی۔ بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
انتخابات میں جماعت کی کارکردگی کا ذکر ہو یا کوئی معاشی علمی نکتہ اُن کی رہنمائی سے کبھی محروم نہیں رہا۔۔۔مگر ان کا کیا ذکر کروں اور کیسے کروں۔ یہ چند الفاظ پچاس ساٹھ کی کہانی کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ کوئی صغیر قمر ایک اور نرالے بابے کا ذکر کرے گا یا ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کے قلم سے یاد رفتیگان کے ذخیرے میں ایک اور کا اضافہ ہو جائےگا۔۔۔
وہ ہم نفس نہیں رہا، کوئی بھی نہیں رہے گا۔ بس رہے گا نام اللہ کا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں