کچھ دنوں پہلے ایک خاتوں ٹک ٹاکر کی ویڈیو دیکھی جو انہوں نے “بشو میڈوز”(” بلتستان ریجن کا ایک مشہور سیاحتی مقام ) میں بنائی تھی۔ محترمہ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سارا سامان لے کر آئی تھیں مستزاد اس پر ارشاد فرمارہی تھیں:” کہ یہاں کہ مقامی ہوٹل انتہائی مہنگے داموں اشیائے خورونوش بیچتے ہیں لہذا ہر کوئی اپنا ذاتی سامان لے کر آئے اور ان چوروں سے بچے۔”
میں کافی دیر محترمہ کی ویڈیو اور ایسی ملتی جلتی ویڈیو دیکھنے لگا۔ جہاں ہر دوسرا شخص یہاں کے باسیوں کو دھیرے دھیرے مری والوں جیسا ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ایک صاحب جنہیں یہی مسئلہ درپیش تھا پچھلے سال مجھ سے شگر نالے کے پاس واقع ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ نما ڈھابے میں ملے۔ انہوں نے یہی شکایت کی۔ موصوف سرینا میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا وہ تمام اخراجات جوابھی کررہے ہیں یہ انہیں کم لگتے ہیں ۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے وہ تو سٹارز کی وجہ سے ہے نا۔۔۔تبھی ہم دونوں نے قہقہہ بلند کیا۔ یعنی ہم لوگ دوبئی میں جائیں تو زمینیں بیچ کر برج خیلفہ میں ایک رات گزارنے کو ترجیح دیں گے مگر وہیں کسی پاکستانی کا کوئی ہوٹل ہوگا تو اس میں دو وقت کھانے کی قیمت ادا کرتے ہوئے اسے لازمی مہنگا ہونے کا طعنہ دیں گے۔
گلگت بلتستان میں بلاشبہ چیزیں پنجاب سے مہنگی ملتی ہوں گی مگر آپ سطح سمندر سے ہزاروں میٹر اونچی اورٹھنڈی ترین جگہ پر یہ چاہیں کہ آپ کو گوشت کا ریٹ لاہور جیسا ملے۔کولڈ ڈرنگ آپ کو میٹرو سٹور کی قیمت پر ملے۔ آپ کو تمام اشیا فیکٹری لاگت پر ملیں تو ایک دفعہ اس گاڑی کو بھی دیکھ کر ہنس لیجئے گا جس میں ہزاروں کا تیل ڈال کر، لاکھوں روپے ٹور پر خرچ کرکے کسی بیچارے ڈھابے والے کی ویڈیو بنا کر آپ نے وائرل ہونے کا شوق پورا کرلیا ہے اور باقی تمام چیزوں کی قیمت آپ کو مناسب ہی لگی ہے۔ کچھ دنوں قبل ہنزہ کے بارے ایسی ویڈیو آئی کہ وہاں بھی چیزیں انتہائی مہنگی ہیں اور ایسی باتیں کرنے والے وہ تھے جنہوں نے چیزیں پہلے سے بازار سے خریدی ہوئی تھیں ااور وہ باقی لوگوں کو یہی ترغیب دے رہے تھے کہ یہ سب لٹیرےہیں ان کے خلاف ایکشن کی اپیل کریں۔
سال کے صرف تین سے چار مہینے گلگت بلتستان والے مقامی سیاحت سے رقم کماتے ہیں۔ پھر سارا سال ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں بچتا۔ وہ بیچارے محنت مزدوری ہی کرسکتے ہیں ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چیزیں کسی حد تک مناسب قیمت پر ملنی چاہئیں اور مقامی لوگوں کو بھی چاہئیے کہ منافع بھی ایک حد تک رکھا جائے مگر حضور کیا آپ جانتے ہیں شہر سے ان علاقوں تک گاڑی کے سفر میں ایک دکاندار انہی چیزوں کے کرائے کی مد میں ایک اچھی خاصی رقم گاڑی والے کو ادا کرتا ہے۔ چاہے وہ غذر، ہنزہ، سکردو ، شگریا گانچھے کے سیاحتی علاقے ہوں۔ مرکزی شہر سے سیاحتی مقام تک ایک دودھ کا پیکٹ اگر نوے روپے کا ہے تو دوکاندار یا ہوٹل والے کو کرایہ وغیرہ شامل کرکے وہ ایک سو دس روپے میں پڑتا ہے اور آپ تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ آپ کو نوے روپے میں وہ دودھ دے۔ دودھ صرف ایک مثال ہے۔ اسی طرح مختلف اشیا کی قیمتیں مرکزی شہر سے کافی اونچی قیمت پر مقامی لوگ مطلوبہ جگہ تک لوگوں کو ادا کرنی پڑتی ہےجس کے بعد ان افراد کی محنت، لاگت اور منافع کو شامل کریں تو بے شک آپ کو چیز تھوڑی مہنگی لگے مگر اسے ذاتی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے ویڈیو بنا کر اس بیچارے ہوٹل والے یا شخص کا کاروبار کرنا کون سا درست عمل ہوگا۔ آپ کو بہتر نہیں لگتا آپ نہ خریدیں۔ آپ قیمت پوچھیں ، زیادہ قیمت لگے تو اپنی چیز نکالیں، کھائئں پئیں اور موج کریں مگر ٹک ٹاک کے چند لائکس کی خاطر علاقے کے لوگوں کو چور ، ڈاکو اور لٹیرے قرار دینا کون سا درست عمل ہے جب کہ آپ اس علاقے کے بارے میں چند حروف بھی نہیں جانتے۔ آپ نے اس کی خوب صورتی دیکھی ہے اس کی سختیاں نہیں جھیلیں تو آٌپ کو یہ حق بھی نہیں کہ آپ وہاں ویسی تنقید کریں جیسے آپ کسی دوسرے جگہ پر کرتے ہیں۔
یہی اصول مقامی لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ سیاح آپ کی آمدنی کا ذریعہ ہیں لہذا زیادہ قیمت مت بتائیں۔ اشیا کی قیمتیں مناسب رکھیں اور سیاحوں کو سمجھائیں کہ اگر کسی شے کی قیمت زیادہ ہے تو کیوں زیادہ ہے؟ بلاوجہ ایک چیز کی دوگنا قیمت وصول نہ کریں۔ سیاحوں سے اخلاق سے پیش آئیں۔ باہمی محبت اور اچھے رویے سے ہی سیاح اور مقامی افراد خود کو بہتر انسان کے طور پیش کرسکیں گے۔ اسی بہتر رویے کے ساتھ مقامی سیاحت دن بدن فروغ پاسکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں