مروجہ سیاست کے “گرما گرم” یوں کہہ لیجئے چنا چور گرم موضوعات اپنی طرف کھینچ رہے ہیں لیکن اس دل کا کیا کیجئے جو صاحبِ دل کے ساتھ ابھی امڑی حضور کے شہر ملتان میں مقیم ہے ان سطور کی اشاعت تک ملتانی امڑی کا مسافر بیٹا جنم شہر سے رخصت ہوچکا ہوگا امید ہے اس بار ملتان سے جدائی کا وقفہ طویل نہیں ہوگا میں جب بھی ملتان آتا ہوں یا شہر مادرِ گرامی سے رخصت ہوتا ہوں، میرے دل و دماغ پر برادر عزیز محمد عامرحسینی کی عشرہ بھر قبل کی ایک تحریر دستک دینے لگتی ہے۔
اس تحریر میں انہوں نے لکھا تھا “شاہ جی ملتان سے رخصت ہوتے وقت ساہیوال تک مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی کہہ دے نہ جائو تمہارے حصے کے رزق کا بندوبست ملتان میں کردیتے ہیں”۔
سچ یہی ہے کہ میں ملتان سے کبھی نہیں بچھڑنا چاہتا۔ دوسرے ملتانیوں کی طرح ملتان میرے اندر بستا ہے۔ یہ اس دن بھی اپنی خوشبوئوں کے ساتھ میرے اندر بسا ہوا تھا جب چوتھی جماعت کا طالب علم گھر کے شُد مذہبی ماحول اور نماز نہ پڑھنے پر والد کے بے رحمانہ تشدد سے بغاوت کرکے گھر سے بھاگ نکلا تھا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ گرمیوں کی اس دوپہر میں نے خونی برج سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر (حرم گیٹ تک پیدل اور پھر وہاں سے تانگے میں) بھیگی آنکھوں سے کیا تھا۔۔
شُد مذہبی ماحول اور تشدد سے جنم لینے والی بغاوت نے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی کہ اب جو بھی ہو اپنی زندگی اور اس کے راستے خود بنانے ہیں شکر ہے بنائے بھی اور آج سیاسی فہم سمیت جو کچھ بھی ہے اس میں خاندانی ورثے کا رتی برابر حصہ نہیں ہاں خاندانی شناخت میں فرد کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔
البتہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گزرے ماہ و سال کی ساری تلخ و شیریں باتوں اور یادوں کے باوجود اگر جنم لینے کا دوسرا موقع ملے اور یہ اختیاری بھی ہو تو میں وعظ والی سیدہ عاشو بی بیؒ کے فرزند کے طور پر جنم لینا چاہوں گا اور اپنی آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقوی کی آغوش میں پروان چڑھنا بھی۔
معاف کیجئے گا میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا مگر کیا کروں پچھلے 57 برسوں کے دوران میں جب بھی ملتان آتا رہتا اور پھر رخصت ہوتا ہوں یادوں کے دفتر کھل جاتے ہیں 57 سال میں وہ 9 سال شامل کرلیجئے جب میں گھر اور ملتان سے نکل بھاگا تھا مگر ان سارے برسوں میں ملتان میرے اندر زندہ و تابندہ رہا ویسے ہی جیسے کئی ہزاریوں سے ملتان زندہ و تابندہ ہے۔
ملتان ایک روشن دلنواز و دلفریب شہر ہے محبتوں کا امین دوست نوازی، رشتوں کی تابندگی مضبوط تہذیبی ثقافت اور تاریخ کا امین شہر، گو اب بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے لیکن پھر بھی 19 اور 20 اپریل کی درمیانی شب کچھ ملتانیوں نے سینکڑوں وسیب زادوں کے ساتھ مل کر برادر عزیز محمود مہے کے ڈیرے کے وسیع لان میں زندہ ملتان کے فرزندوں کی طرح گفتگو، شاعری، موسیقی اور جھمر کے ذریعے اپنے ورثے اور شناخت کے فخر کا اظہار کیا۔
یہ سارے وسیب زادے ہزاریوں سے آباد ملتان میں پانچویں سوجھل ادبی ثقافتی قومی کانفرنس میں شرکت کے لئے جمع ہوئے تھے اس کانفرنس کا احوال کامیابی اور کمیوں پر الگ سے کالم لکھوں گا فی الوقت ملتان اور ملتانیوں کی باتیں کرتے ہیں کہ دل ابھی ان باتوں سے بھرا نہیں۔
ملتان میرے لئے تو ایک ایسا “الہام” ہے جس کا نزول مسلسل جاری ہے ہر ملتانی پر وہ بھلے کہیں بھی ہو اس پر “الہامِ ملتان” کا نزول صورِ اسرافیل پھونکے جانے پر ہی تمام ہو تو ہو دوسری کوئی صورت نہیں۔
ہاں یہ سچ ہے کہ ہم ملتانی اپنے ملتان کے مجرم ہیں کہ مذہبی شدت پسندی نے ملتان کی ہزاریوں پر پھیلی تاریخ کی ایک زندہ نشانی “دانش کدہء پرہلاد” کی بربادی پر نوحے کہے مرثیہ لکھا نہ وینڑ ڈالے اور ماتم کیا۔
تاریخ کے کٹہرے میں جب ملتانیوں کی ہماری نسل ایک مجرم کے طور پر پیش ہوگی تو بھیانک سزا کی حقدار ٹھہرے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ملتانیوں کی اس مجرم نسل کو پھانسی گھاٹ پر جھولانے کی بجائے دھتکار دیا جائے گا۔ پھانسی چڑھائے جانے سے دھتکار دیا جانا زیادہ سخت اور عبرت ناک سزا ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ملتانیوں کی ہماری نسل کے لوگ اس سزا سے بچنے کے لئے ہاتھ پائوں مارلیں گے؟
ملتان اور ملتانی آج جس ماحول میں جی بس رہے ہیں وہ بذات خود ایک سزا ہے ایک روشن فکر انسان دوست مٹی کی محبت کے اسیر تہذیبی ثقافتی اور شاندار تاریخی ورثے کے امین شہر میں ہمہ قسم کی شدت پسندیوں کا دور دورہ ہے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ملتان اور ملتانیوں پر یہ جو عذاب ٹوٹے ہوئے ہیں ان کے ٹوٹنے میں ہمارے بزرگوں اور پُرکھوں کا کتنا قصور ہے؟
ہماری نسل کے ملتانیوں نے ترقی پسند اور انسان دوست شہر کو مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے دیکھا۔ مزاحمت کیوں نہیں کی؟
اس مختصر سوال کا جواب یہ ہے کہ “سکیورٹی اسٹیٹ پوری قوت سے ان شدت پسندوں کے پیچھے کھڑی ہے صرف سکیورٹی سٹیٹ نہیں نام نہاد دانشور، گھبرائے ہوئے کاروباری پیر، صدقہ و زکوٰۃ پر پلنے والے بوزنے ہر چند سال بعد سیاسی وفاداریاں بدلنے والے موسمی سیاست کار سبھی اپنے اپنے مفاد کے چکر میں ملتانیوں کو گھن چکر بنارکھنے کے لئے شدت پسندوں کے سہولت کار ہیں”۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ملتان اپنا ترقی پسند چہرہ کردار اور تعارف پھر سے حاصل کرپائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اب لڑائی پورے سرائیکی وسیب کو مل کر لڑنا ہوگی۔
ملتانیوں اور دوسرے وسیب زادوں کو تلوار اٹھانی ہے نہ بندوق بس انہیں اپنی مونجھ کو مزاحمت کی ڈھال بنانا ہوگا۔ اپنے تہذیبی ثقافتی اور تاریخی ورثے کا دامن مضبوطی سے تھام کر عصری شعور کے ساتھ اپنی شناخت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرناہوگی۔
سرائیکی وسیب کے زمین زادوں کو شعوری طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی فیڈریشن کی ایک قومی اکائی کے طور پر جو ہمارے حقوق بنتے ہیں وہ بالادستوں اور ساجھے داروں کے گٹھ جوڑ سے پامال ہورہے ہیں پہلے ہماری زمینیں سول ملٹری اشرافیہ اور دوسرے بالادستوں کو الاٹ ہوتی رہیں پانی کے مسئلے پر ہمارے ظاہری نمائندوں نے کبھی بھی قومی شعور اور مفاد کے مطابق بات نہیں کی۔
اب چولستان میں گرین فارمنگ کے نام پر اراضی کی بندربانٹ جاری ہے اس بندربانٹ کو دائمی بنانے کے لئے دریائی پانیوں کی تقسیم کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6 نئی نہریں نکالی جارہی ہیں۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہمیں سوال کرنا ہوگا پہلے فوجی نجات دہندہ (فوجی آمر) جنرل ایوب خان نے دو دریا بھارت کو فروخت کئے، چناب اور جہلم پر بھارت نے اپنی حدود میں ڈیم بنالئے دونوں دریائے میں پانی پچھلی دہائی کے مقابلے میں اب پچاس فیصد سے بھی کم رواں ہوتا ہے۔
راوی تقریباً خشک ہے۔ چناب میں پانی کی جو حالت ہے وہ آنکھوں دیکھی جاسکتی ہے۔ انڈس ویلی (سندھ وادی) کا تعارف سندھو ندی (دریائے سندھ) کی حالت ابتر ہے۔
زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے ان حالات میں 6 نئی نہرویں نکالنے اور گرین فارمنگ کی قبضہ گیری کو سیراب کرنے کا منصوبہ جس نے بھی بنایا وہ سرائیکی وسیب اور وسیب زادوں کا دوست ہرگز نہیں ہوسکتا۔
قومی و صوبائی اسمبلی اورسینیٹ میں موجود سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال جماعتوں کے ارکان نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ “شاہ پتہ نہیں کیوں تم سید پروری کے چکر میں قومی مجرموں کو “روزہ دار” ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہو؟” اب اس ہمزاد کو کیسے سمجھائوں کہ سید پروری بالکل نہیں اور سرائیکی وسیب سے صرف سید ہی تو پارلیمان کے مختلف ایوانوں میں نہیں دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں ان سب نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور یہ چُپ کا روزہ ان کی خاندانی ملازمت کے تسلسل کے لئے ضروری ہے۔
بہرطور بار دیگر عرض یہ ہے کہ ملتان سمیت سرائیکی وسیب کو اپنے سیاسی قومی معاشی زرعی اور دیگر حقوق کے لئے متحد ہوکر میدان عمل میں اترنا ہوگا۔ میدان عمل میں اترنے میں جتنی تاخیر ہوگی نقصان بڑھتا جائے گا۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر مجرمانہ غفلت کے ارتکاب کا سلسلہ جاری رہا تو ایک لمبی سیاہ گھپ گھور اندھاری رات ہمارے وسیب کا مقدر بن جائے گی۔
“ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں”۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں