سلطنت کیلئے خیر اور شر کا تصور وہ نہیں ہوتا جو سماج میں رائج ہو، سلطنت میں ہر وہ چیز خیر ہے جس سے سلطنت مضبوط ہو، یہی چال چلن مقتدرہ کا ہے، یہاں کسی مذہب یا اخلاق کی اہمیت ثانوی ہے، والٹیئر کے بقول ،
” خدا اسی کے ساتھ ہے جس کی بٹالین مضبوط ہے”
سلطنت کا اقتدار کمزور کرنے والی ہر چیز کو شر گردانے گا، یہی اقتدار اور سلطنت کی فطرت ہے، بچاؤ صرف فطرت کے مطابق چلنا ہے، یہ اصول ایک جرثومے سے لے کر ریاست تک کیلئے موزوں ہے ، بھیڑیا بردلی دکھائے گا تو جان سے جائے گا، خرگوش جب تک بزدل ہے تب تک زندہ ہے ، بہادر خرگوش کا مطلب مردہ خرگوش ہے۔
ریاست دفاعی ہو تو اس کے اصول مختلف ہوں گے، اقتدار کی مخصوص شکل ہوگی، فلاحی ریاست کی فطرت الگ ہے اس لئے اس پہ دوسرے اصول لاگو ہوں گے،
رومی سلطنت اسی اصول پہ قائم تھی، اس سلطنت بارے ایڈورڈ گبن کا کہنا ہے کہ سلطنت میں عوام ہر مذہب کو برابر حق مانتے تھے، ہر فلسفی کو برابر جھوٹا اور ہر حکمران کو برابر سود مند سمجھتے تھے۔ البتہ عیسائیت ایک استثناء کے طور پر جبر کا نشانہ بنی، وہ بھی مخصوص وقت پہ جا کر ، اس کی وجہ ایک طویل بحث کی متقاضی ہے۔
ریاست دفاعی ہو یا پھر کسی بھی قسم کی ڈکٹیٹر شپ ہو جیسا کہ سلطنت کیلئے لازم ہے، وہاں اقتدار کی شکل مرکزی ہوگی، ایسے جیسے شاخوں کیلئے درخت کے تنے کی اہمیت ہوتی ہے، تنا مضبوط اور توانا ہو تو ہی شاخیں پھلیں پھولیں گی، ایسے میں تمام تر وسائل اسی تنے کی مضبوطی کیلئے برسر پیکار لائے جاتے ہیں۔ شاخیں، پھول اور پھل اگاتھا کرسٹی کے الفاظ میں دسترخوان پہ باقی رہ جانے والے ٹکڑوں پہ گزارا کرتے ہیں۔ روم کا قیصر جو مشتری کا بیٹا مانا جاتا تھا، اس کی حیثیت اسی تنے کی سی تھی، حاکم مطلق کے خصائل کو خوشامدی لوگ بڑھ چڑھ کے بیان کرتے، ریاست میں باقاعدہ قانون موجود تھے جہاں قیصر کی شان میں گستاخی پر سخت سزائیں مقرر کی گئی تھیں، حادثاتی طور پر قیصر کسی گمنام زندگی سے نکل کر تخت نشیں ہوتا تو خوشامدی ٹولہ اس کی بائیو گرافی میں وہ خصلتیں ڈھونڈھ لاتا کہ جو خالصتاً دیوتائی ہوا کرتیں۔
ہمارے ہاں اقتدار کی پس پردہ شکل وہی آمرانہ ہے جو کسی سلطنت میں ممکن ہو سکتی تھی ، خیر اب تو تکلف کی یہ چلمن بھی اٹھا دی گئی ہے ، کبھی کوئی حافظ یا قاضی تخت نشیں ہو تو خوشامدی دانشور اس کا نسب عرب کے قریش قبیلے سے جا جوڑتے ہیں یا پھر پینسٹھ اور اکہتر کی جنگی تاریخ میں سے موصوف کے وہ ہوشربا اوصاف سامنے لاتے ہیں کہ عوام الناس کے دل کہ دھڑکن توازن کھو بیٹھتی ہے، مشتری خصائل قیصر کی شخصیت بارے مبالغے کا مقصد ریاست کو دوام دینا تھا کہ قیصر اپنے ذاتی مفاد یا پرتعیش زندگی کیلئے تخت نشین نہ ہوتا، سلطنت کی ساخت ایسی تھی کہ اس کی مضبوطی قیصر سے جڑی تھی، وطن عزیز میں ایسی مبالغہ آرائی کا مقصد ایک فرد یا زیادہ سے زیادہ ایک ادارے کی خوشامد کرنا ہے، جس کے پیچھے ذاتی مفاد اور گاہے خوف پرورش پاتا ہے۔ سلطنت کا تصور ہر ڈکٹیٹر شپ کیلئے ضروری ہے اور vice versa.
ہسپانوی شاعر ( نام یاد نہیں ) نے سلطنت کے نظام بارے یہ نعرہ بلند کیا تھا
” ایک چراہ گاہ ایک چرواہا، ایک یقین، ایک حکمران اور ایک تلوار ”
اسی چیز کو نازی پارٹی کے گوئبلز نے پھر یوں کہا
” ایک قوم، ایک سلطنت اور ایک حکمران ”
ہمارے ہاں اقبال نے اس نعرے کو اپنے الفاظ میں ڈھالا
” حرم بھی ایک ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک ”
واقعہ یہ ہے کہ اقتدار کی یہ شکل تب تک کارآمد تھی جب تک سلطنت کا تصور موجود تھا ، کیونکہ وہاں شخصی آزادی کا کوئی تصور نہ تھا ، بیرونی دنیا کے ساتھ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا اسی لئے درخت کے تنے کی مضبوطی پر ہی توجہ مرکوز رہتی، آج سلطنتوں کے گرنے اور مختلف ریاستی ممالک کے سامنے آنے سے فرد واحد کا اقتدار ریاست کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، جدید ریاست میں اقتدار کی شکل ٹوکرے کی سی ہے، وہی ٹوکرے جس کے نیچے گرمیوں میں ہم مرغیوں کو شب گزاری کیلئے بند کرتے ہیں، یہ ٹوکرا درخت کی لچکدار ٹہنیوں سے یوں بنا ہوتا ہے کہ ٹہنیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں، گویا کہ ہر ادارے کا انحصار دوسرے اداروں پر ہے، تمام ادارے مضبوط ہوں گے تو ہی ٹوکرا مضبوط ہوگا، کوئی ایک ٹہنی کمزور پڑی تو بلی کو موقع ملتا ہے کہ وہاں سے پنجہ گھسا کر مرغی لے اڑے، اسی طرح شخصی آزادی کا تصور بھی مضبوط ہوتا ہے کہ ہر ٹہنی کو اپنی اہمیت اور مضبوطی کا احساس ہوتا یے، مزید برآں ہر ٹہنی جانتی ہے کہ جہاں اس کی ناک ختم ہوئی وہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے جہاں دخل اندازہ اچھی بات نہیں ۔
اکیسویں صدی میں ہم سلطنت والے شعور کے ساتھ جی رہے ہیں، خلافت کی باتیں ہوتی ہیں، مطلق العنان اقتدار کی جڑیں مضبوط کرنے میں ہر جائز و ناجائز فکر کو پروان چڑھاتے ہیں، ہمیں یہ بات اب سمجھ لینی چاہئے کہ بھیڑئیے میں خرگوش والی خصلتیں یا پھر خرگوش میں بھیڑیئے کے اوصاف انجیکٹ کر کے ہم اس کی بقا کو داؤ پہ لگا رہے ہیں، فطرت کے خلاف جا رہے ہیں، انجام موت ہے ۔
ریاستی سطح پر پلٹنے جھپٹنے والی جارحانہ کاروائیوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام الناس کے جذبات کو بھڑکا کر بھیڑیے یا خرگوش کا اصل چہرہ چھپایا جا سکے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں