Hearing Impairment–ایک خاموش معذوری/ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

سماعت سے محرومی یا قوت سماعت میں کمی ایک ایسی معذوری ہے جو انسان کو معاشرے سے کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے سماعت کے مسائل کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اکثر کیسز میں بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سماعت کی معذوری نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے خاندان اور معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

سماعت سے محرومی کی کئی اقسام اور وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچے پیدائشی طور پر بہرے پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ جینیاتی عوامل، حمل کے دوران ماں کو لگنے والے انفیکشنز (جیسے روبیلا)، یا پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی ہو سکتی ہے۔ دوسری قسم ایکوائرڈ ہئیرنگ لاس ہے جو بعد کی زندگی میں کسی بیماری، چوٹ یا طویل عرصے تک شور کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سماعت کا کم ہونا (پریسبائی کوسس) بھی ایک عام مسئلہ ہے۔

سماعت کی کمی کی علامات میں آوازوں کا سنائی نہ دینا، بولنے میں تاخیر، ٹی وی یا ریڈیو کی آواز بہت زیادہ بڑھا دینا، اور بات چیت میں الجھن شامل ہیں۔ بچوں میں اگر ابتدائی عمر میں ہی سماعت کے مسائل کی تشخیص ہو جائے تو اسپيچ تھیراپی اور دیگر علاج سے انہیں نارمل زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں اوٹوسکوپی (کان کا معائنہ)، پیور ٹون آڈیومیٹری، اور برین سٹیم ایووکڈ ریسپانس ٹیسٹ شامل ہیں۔ نوزائیدہ بچوں میں سماعت کے ٹیسٹ (نیو بورن ہئیرنگ اسکریننگ) اب بہت سے ہسپتالوں میں معمول بن چکے ہیں۔

علاج کا انحصار سماعت کی کمی کی نوعیت اور شدت پر ہوتا ہے۔ کچھ معاملات میں ادویات یا سرجری سے فائدہ ہو سکتا ہے جبکہ دائمی صورتوں میں ہئیرنگ ایڈز، کوچلیئر امپلانٹس، یا دیگر معاون آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔ کوچلیئر امپلانٹ ایک چھوٹا سا الیکٹرانک آلہ ہوتا ہے جو گہری سماعت کی کمی والے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

سماعت سے محروم افراد کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے اور سائن لینگویج کے پروگرام بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں کئی اسکول ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف ہیں جہاں خصوصی تدریسی طریقوں سے انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جاتا ہے۔

معاشرتی طور پر سماعت سے محروم افراد کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ملتے ہیں، سماجی تعلقات محدود ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات انہیں معاشرے میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سماعت کی معذوری ذہانت کی کمی نہیں ہوتی۔ تاریخ ایسے کئی سماعت سے محروم افراد کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے معاشرے میں اپنا نمایاں مقام بنایا۔

احتیاطی تدابیر میں حمل کے دوران ماں کی صحت کا خیال رکھنا، بچوں کو خطرناک انفیکشنز سے بچانا، اور شور والی جگہوں پر کانوں کا تحفظ کرنا شامل ہے۔ لاوڈ اسپیکرز اور ہارن کے بے جا استعمال سے گریز کرنا چاہیے جو سماعت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتے ہیں۔

حکومت اور سماجی اداروں کو چاہیے کہ وہ سماعت سے محروم افراد کے لیے خصوصی سہولیات مہیا کریں۔ عوامی مقامات پر ویژول الارم سسٹم، ٹی وی پر سب ٹائٹلز، اور سرکاری دفاتر میں سائن لینگویج مترجمین کی تعیناتی اس سلسلے میں اہم اقدامات ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سماعت سے محرومی کوئی لعنت نہیں بلکہ ایک چیلنج ہے جسے مناسب سہولیات اور معاشرتی تعاون سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے افراد کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اپنائیں اور انہیں معاشرے کا ایک فعال رکن بننے میں مدد دیں۔ یاد رکھیں، ہر انسان چاہے وہ کسی بھی معذوری کا شکار ہو، عزت اور احترام کا مستحق ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply