ڈاکٹر علوی کا متنازع بیان/محمد ذیشان بٹ

ڈاکٹر عارف علوی کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے عمران خان کی مقبولیت کا موازنہ انبیائے کرام  سے کیا، ایک ایسا تنازع  ہے جو صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشرتی اور اخلاقی حدود کی پامالی کا شاخسانہ بھی ہے۔ یہ بیان نہ صرف تاریخ کے مقدس حقائق کو مسخ کرتا ہے بلکہ عوامی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی تعریف مبالغہ آرائی تک جائز ہے، لیکن جب یہ مبالغہ مذہبی قدروں کے ساتھ کھیلنے لگے تو اس کی قبولیت ممکن نہیں رہتی۔

ڈاکٹر علوی کے بیان کی نوعیت دیکھیں تو یہ محض ایک سیاسی لیڈر کی حمایت سے آگے بڑھ کر مذہب کے بنیادی تصورات کو مجروح کرتا نظر آتا ہے۔ انبیائے کرامؑ کی مقبولیت کا پیمانہ محض عددی نہیں، بلکہ ان کا مقصدِ حیات، اخلاقی اقدار، اور انسانیت کی رہنمائی کا وہ عظیم مشن ہے جو کسی بھی سیاسی رہنما کے دائرہ کار سے ماورا ہے۔ عمران خان یا کوئی اور لیڈر کسی مخصوص دور میں عوامی پذیرائی حاصل کرسکتا ہے، لیکن یہ مقبولیت کبھی بھی انبیاء کے روحانی اور اخلاقی ورثے کے سامنے پیش کی جانے والی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہ موازنہ نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ مذہبی حوالوں سے انتہائی غیر حساس بھی۔

سیاسی موازنوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اسی میدان تک محدود رکھا جائے۔ مثال کے طور پر، بابر اعظم کی کامیابیوں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں سچن ٹنڈولکر یا رکی پونٹنگ کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے، لیکن ان کا نام لیونل میسی یا پیلے کے ساتھ جوڑنا غیر متعلقہ ہوگا۔ اسی طرح عمران خان کا موازنہ قائداعظمؒ، بھٹو، یا نواز شریف کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، لیکن جب انہیں انبیاء یا اولیاء کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف علمی کمزوری کا اظہار ہے بلکہ عوام کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی بھی۔

یہ مسئلہ صرف ڈاکٹر علوی تک محدود نہیں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں یہ رجحان عام ہے کہ لیڈران کو نعروں اور جذباتی نعرہ بازی کے ذریعے “معصوم” اور “مقدس” بنا دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف ہو یا کوئی اور جماعت، کارکنان اپنے لیڈر کو ایک ایسی پینٹنگ کی طرح پیش کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا کوتاہی نظر نہ آئے۔ یہ رویہ نہ صرف حقیقت پسندی کے منافی ہے بلکہ جمہوری روایات کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کو تعلیم اور تنقیدی سوچ کی تربیت نہیں دیں گی، ایسے بیانات کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔

ڈاکٹر علوی کا یہ بیان ایک اور اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے: ہمارے معاشرے میں مذہبی اقدار اور سیاست کے درمیان گڈمڈ۔ سیاسی لیڈران مذہبی علامتوں کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن جب انہیں ان علامتوں کے اصل مفہوم کی تفہیم ہوتی ہے تو وہ اپنی علمی کم مائیگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی خود جماعت اسلامی کے سابق رکن رہ چکے ہیں، لیکن ان کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کے بنیادی فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انبیاءؑ کی مقبولیت کا تعلق عوامی ہجوم سے نہیں، بلکہ اللہ کے ساتھ ان کے عہد اور انسانیت کی نجات کے مشن سے ہے۔ اسے کسی بھی سیاسی لیڈر کے ساتھ جوڑنا، چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، درحقیقت مذہب کی توہین کے مترادف ہے۔

اس موقع پر یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سی تربیت ہے جو سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کو دے رہی ہیں؟ کیا یہ تربیت انہیں تاریخ، مذہب، اور اخلاقیات کے بنیادی اصولوں سے آشنا کرتی ہے، یا صرف نعروں اور جذباتی تقریروں تک محدود ہے؟ ڈاکٹر علوی کا یہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے اراکین کو علمی اور فکری طور پر تیار کرنے میں ناکام ہیں۔ ایک ڈینٹسٹ سے صدر تک کے سفر میں ڈاکٹر علوی نے بے شمار علمی اور پیشہ ورانہ کامیابیاں سمیٹیں، لیکن سیاسی تربیت کے حوالے سے وہ آج بھی ایک طالب علم ہی نظر آتے ہیں۔

اس تنازع  کا حل یہ نہیں کہ ڈاکٹر علوی پر تنقید کرکے انہیں شرمسار کیا جائے، بلکہ یہ کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرائیں جو نہ صرف سیاسی نظریات بلکہ اخلاقیات، تاریخ، اور مذہبی روایات کی صحیح تفہیم پر مبنی ہو۔ جب تک سیاسی کارکنان کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ مذہبی علامتوں کا استعمال کس طرح کیا جائے، ایسے بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ڈاکٹر علوی کو چاہیے کہ وہ اپنے بیان پر نظرثانی کریں اور عوامی سطح پر معذرت کا اظہار کریں۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف ان کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی شبیہہ کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ ایک سابق صدر ہونے کے ناطے انہیں یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ وہ سیاسی اور مذہبی امور کے درمیان واضح لکیر کھینچیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، جہاں مذہب اور سیاست کا ایک دوسرے کے ساتھ نازک رشتہ ہے۔ اس رشتے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رہنما مذہبی قدروں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ان کے احترام کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ عمران خان کی مقبولیت ایک سیاسی حقیقت ہے، لیکن اسے کسی مذہبی حقیقت کے ساتھ جوڑنا نہ صرف غلط ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی۔ ہمیں اپنے سیاسی کلچر میں وہ بلوغت پیدا کرنی ہوگی جو مذہب اور سیاست کے درمیان صحیح توازن قائم کرسکے۔

Facebook Comments

محمد ذیشان بٹ
I am M. Zeeshan butt Educationist from Rawalpindi writing is my passion Ii am a observe writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply