ہمارا مطالعہ پاکستان درست نکلا/نجم ولی خان

ایک طویل عرصے سے شور ہے کہ ہمیں پڑھایا جانے والا مطالعہ پاکستان، درست نہیں۔ ایسی باتیں عمومی طور پر وہ کرتے ہیں جنہیں مشہور ہونے اور زیر بحث آنے کا شوق ہے۔ وہ اس کے لئے کوئی علمی اور تحقیقی کاوش نہیں کرتے بلکہ قوم کے تاریخی طور پرتسلیم شدہ، مسلمہ اور مصدقہ حقائق پر کڑوے سچ کے نام پر دشمن کا مؤقف دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک بات شروع میں ہی ذہن میں رکھ لیجئے کہ دنیا میں ایسی کوئی تاریخ (یعنی ہسٹری) موجود نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔

ہر قوم کے پاس اپنی اپنی تاریخ موجود ہے جو اس کے اپنے نکتہ نظر اور مفاد کے مطابق ہے جیسے متحدہ برصغیر کی تقسیم۔ اس پر ایک تاریخ ہندوستان کے پاس ہے اور دوسری تاریخ پاکستان کے پاس۔ اس کا ایک تیسرا ورژن بنگلہ دیش کے پاس موجود رہا جو ابھی حال ہی میں حسینہ واجد کے شرمناک فرار کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ ڈیٹ ہوا ہے۔ کچھ ایسی ہی تاریخ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہے۔ اگر آپ واہگہ سے اِدھر یعنی ہماری طرف ہیں تو اس تاریخ میں ہندوستان ولن ہے اور اگرآپ اٹاری سے پرے یعنی ان کی طرف ہیں تو اس میں ہم ولن۔ معاملہ صرف پاکستان اور ہندوستان کا نہیں، روس، چین، امریکہ، یورپ تک تاریخ اسی طرح موجود ہے یعنی اپنے اپنے مطالعے، ہیں۔

اگر آپ حقیقی نظر سے دیکھیں تو مطالعہ پاکستان کے مقابلے میں ایک ہی ورژن موجود ہے اور وہ ہے مطالعہ ہندوستان۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ مطالعہ پاکستان چنتے ہیں یا مطالعہ ہندوستان۔ یہ بات نہیں کہ پاکستان میں مطالعہ پاکستان کی نفی کرنے والے بہت ہیں بلکہ یہی حال ہندوستان میں بھی ہے، ہمارے ہاں مطالعہ پاکستان کی نفی کرنے والے ہوں یا سرحد پار مطالعہ ہندوستان کو غلط کہنے والے، یہ سب اپنے آپ کو سچے، انقلابی اور مجاہد سمیت بہت کچھ کہہ اور سمجھ رہے ہوں گے، لائیکس، ڈس لائیکس لے رہے ہوں گے۔

ہمارے مطالعہ پاکستان میں سرسید احمد خان ہیں، علامہ اقبال ہیں اور قائداعظمؒ بھی مگر ہمارے پاس ایسے دانشوڑ، بھی موجود ہیں جنہیں اپنے مطالعہ پاکستان کی بجائے مطالعہ ہندوستان کاابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی اور ماسٹر تارا سنگھ ہی نہیں بلکہ شیخ مجیب تک درست لگتا ہے یعنی وہ ہمارے دشمن کی فکر، فہم اور تشریحات چراتے ہیں، انہیں ہمارے سامنے اپنے سچ کے طور پر رکھ کے محقق، علامے، دانشور اور انقلابی بن جاتے ہیں۔ تکلف برطرف، میں ابوالکلا م آزاد کو آزاد سمجھتا ہی نہیں، وہ ابوالکلام غلام تھا یعنی ہندو اکثریت کی سیاست، مفادات اور سوچ کا غلام۔

آزاد تو علامہ اقبال اور محمد علی جناح تھے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان تینوں ممالک کے مسلمان صرف ہندوستان میں ہی ہوتے تو وہ بھارتی ہندووں کے مقابلے میں ایک قوت ہوتے تو مجھے ہنسی آجاتی ہے۔ جموں و کشمیر اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں تو کیا وہاں ان کی چلتی ہے؟ ہمارا مطالعہ پاکستان اس وقت درست ثابت ہوگیا جب نریندر مودی نے عمران باجوہ دور میں مقبوضہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع سٹیٹس ختم کر دیا، اسے اپنا آئینی اٹوٹ انگ بنا لیا تویہاں اور وہاں کے بھاری اکثریت میں موجود مسلمانوں نے کیا کر لیا؟

ابھی آپ نے نریندر مودی کی طرف سے ہندوستان میں منظور کروائے گئے وقف ترمیمی بل کا بہت چرچاسناہوگا جس کے بعد اب مسلم اوقاف بورڈز کے ارکان میں ہی غیر مسلم شامل نہیں ہوسکیں گے بلکہ ان بورڈز کے سی ای او بھی غیر مسلم لگ سکیں گے۔ اس قانون نے مسلم وقف جائیدادوں پرتنازعات کے حل کا اختیار بھی مسلم بورڈز سے چھین کے ڈسٹرکٹ کلیکٹرز کو دے دیا یعنی حکومتی مداخلت انتہا کو پہنچا دی گئی اور یہی نہیں ایک لازمی سروے اور رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کر دیا گیا یعنی جو مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، قبرستان یا فلاحی ادارہ چاہے ہزار برس سے مسلمانوں کے پاس ہے اب وہ لازمی سروے میں ثبوت مہیا کریں، اب آپ ہی بتائیں گے کہ کئی کئی سو سال پرانی جائیدادوں کے کاغذ مسلمان کہاں سے لائیں گے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس قانون کے آنے کے بعدمدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں مسلمانوں کی مسجدوں، مدرسوں پر قبضے شروع بھی ہو گئے ہیں۔

اپنے مطالعہ پاکستان کو غلط کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ہندو، ان کے آبائواجداد سے ہندوستان پر سینکڑوں سال حکومت کرنے کے بدلے کس طرح لے رہا تھا (اور اب بھی لے رہا ہے) سو، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مطالعہ پاکستان غلط ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ مطالعہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بہنیں اور بیٹیاں ہندوؤں کی بہوویں بن رہی ہیں، ان کے بچے جن رہی ہیں اور یہ ثقافت، معاشرت وہاں پر عمومی قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ ابھی راجیہ سبھا میں کانگریس کے رکن عمران پرتاب کی وہ تقریر بہت وائرل ہوئی جس میں وہ ابوالکلا م سے شکوہ کر رہے ہیں کہ تم نے کہا اپنی باندھی اور اٹھائی ہوئی گٹھڑیاں نیچے رکھ دو، مت جائو پاکستان، کیا اس دن کے لئے روکا تھا؟ اس سے چند ہفتے پہلے ہی ہولی منائی گئی اور اس ہولی نے پھر ثابت کر دیا کہ ہمارا اقبال اور جناح والا مطالعہ پاکستان ہی سچا تھا، درست تھا۔

اپنے مطالعہ پاکستان کو غلط کہنے والوں کے پاس گاندھی، شیخ مجیب اور عمران خان کا مطالعہ ہندوستان موجود ہے یعنی ہمارے دشمن کا ورژن۔ ابھی آپ پہلگام والا واقعہ ہی دیکھ لیجئے۔ نریندر مودی نے فالس فلیگ آپریشن کیا اورسندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بہار نکل گیا جہاں انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن بہت پتلی ہے۔ وہاں جا کے اس نے پاکستان دشمن بہت سارا منجن بیچا۔ حیرت انگیز طور پراپنے مطالعہ پاکستان کو غلط کہنے والے پی ٹی آئی کے کارکن بھی پاکستان کی ریاست، حکومت اور سیکورٹی اداروں کے خلاف وہی منجن بیچ رہے ہیں جو نریندر مودی کے پاس ہے۔ ان کے بہت سارے دلائل اور الفاظ تک حیرت انگیز طور پر ایک جیسے ہوجاتے ہیں اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کیونکہ جب یہ مطالعہ پاکستان کی نفی کرتے ہیں تو یہ آٹومیٹک طور پر مطالعہ ہندوستان کے بھونپو بن جاتے ہیں۔

ایک اندراگاندھی بھی ہوا کرتی تھی جس نے مسلمانوں ہی نہیں سکھوں کو بھی ٹارگٹ کیا تھا۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ گولڈن ٹمپل پر چڑھ دوڑی تھی اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جیسے بہادر لیڈر کو قتل کر دیا تھا۔ یہ وہی اندراگاندھی تھی جس نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کوغرق کرنے کا دعویٰ کیا تھا، خیر وہ خود تو سکھوں کے ہاتھوں ماری گئی اور اس کے کٹھ پتلی شیخ مجیب کو خود بنگلہ دیش کی فوج نے پورے خاندان سمیت بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا تھا۔ صرف اس کی دوبیٹیاں بچی تھیں جس میں سے آخری ڈائن حسینہ واجد بھی بنگلہ دیش سے فرار ہو کے ہندوستان پہنچ چکی ہے۔ پاکستان توڑنے والے سب کرداروں کا عبرتناک انجام ہوا مگر بتانا یہ تھا کہ بنگلہ دیش والوں نے بھی آخر کار ہمارا مطالعہ پاکستان ہی دوبارہ درست تسلیم کر لیا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply