• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سو سال بعد،لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نظام کو نئی زندگی کی ضرورت/ اے وسیم خٹک

سو سال بعد،لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نظام کو نئی زندگی کی ضرورت/ اے وسیم خٹک

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور 2026 میں اپنی تاسیس کے سو سال مکمل کرنے جا رہا ہے۔ ایک صدی پر محیط اس سفر میں یہ ادارہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا طبی مرکز بن چکا ہے، جہاں روزانہ اوسطاً پانچ ہزار سے زائد مریض او پی ڈی سے رجوع کرتے ہیں۔ مہینے بھر میں یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نے اس تاریخی موقع پر بولٹن بلاک کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا ہے، جو سو سال پرانی یادگار عمارت ہے۔ آنے والا سال انتظامیہ کے لیے محض ایک جشن نہیں بلکہ ایک نئی سمت کے عزم کا مظہر ہونا چاہیے۔

حالیہ ذاتی مشاہدے کے بعد یہ احساس شدت سے ہوا کہ اس ادارے میں جہاں کچھ قابلِ تعریف پہلو موجود ہیں، وہیں بہت سے شعبے ایسے بھی ہیں جہاں فوری بہتری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ عملے کی کمی ہے، جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات بدتمیزی، بدانتظامی اور افرا تفری کے مناظر نظر آتے ہیں۔ تیماردار، جو پہلے ہی ذہنی اور جسمانی دباؤ میں ہوتے ہیں، معمولی باتوں پر سکیورٹی یا عملے سے الجھ پڑتے ہیں۔

رہنمائی اور معلوماتی نظام کی عدم موجودگی مریضوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ لائنیں ضرور لگی ہوتی ہیں لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ کس مقصد کی ہیں۔ اسپیکر کے ذریعے دی جانے والی ہدایات شور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، جو مریضوں کے لیے اذیت بن جاتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کے جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے معلوماتی سکرینز نصب کی جائیں اور سادہ زبان میں چھوٹی چھوٹی ویڈیوز سے آگاہی فراہم کی جائے۔

ہسپتال کی صفائی اور بنیادی سہولیات کا فقدان بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بیت الخلا کی عدم دستیابی، گندگی کے ڈھیر، اور مچھروں کی بھرمار معمول بن چکی ہے۔ ان سب مسائل کا حل صرف بہتر انتظامی کنٹرول میں نہیں بلکہ آؤٹ سورسنگ جیسے جدید طریقہ کار میں ہے۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں صحت کے ادارے صفائی، ویسٹ مینجمنٹ، کینٹین، پارکنگ اور یہاں تک کہ ٹرانسپورٹ جیسی خدمات نجی شعبے کو دے کر بہتر سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور آمدن بھی حاصل کر رہے ہیں۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں میڈیا سکرینز لگا کر فارما کمپنیوں کے اشتہارات نشر کیے جا سکتے ہیں، جس سے معقول ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شکایات کے لیے ڈیجیٹل ایپ یا ویب پورٹل متعارف کرایا جا سکتا ہے، جو بروقت مسائل کا حل ممکن بنائے۔ صفائی کے لیے ویسٹ پروسیسنگ مشینوں کے ذریعے نہ صرف صفائی ممکن ہو گی بلکہ توانائی پیدا کر کے بجلی کا خرچ بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ بیت الخلا کی تعمیر اور دیکھ بھال نجی اداروں کے حوالے کی جا سکتی ہے، جو سروس چارجز کے بدلے اسے بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں۔

ہسپتال کے کچھ نئے بلاک واقعی بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیے گئے ہیں، جو خوش آئند بات ہے، لیکن بدقسمتی سے کچھ پرانے وارڈز اب بھی ایسے ہیں جو سہولیات کے لحاظ سے نہایت ناقص حالت میں ہیں۔ یہ وارڈز ڈیمولیشن پلان میں شامل ہیں اور آئندہ چند سالوں میں انہیں مکمل ختم کر کے وہاں نئی تعمیرات کی جا سکتی ہیں۔ اگر منصوبہ بندی اور عملدرآمد مؤثر انداز میں کیا جائے تو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو ایک بار پھر مکمل طور پر جدید اور ماڈل ادارہ بنایا جا سکتا ہے، جو نہ صرف اس کے ماضی کے شایانِ شان ہو گا بلکہ مستقبل کی ضروریات کے بھی مطابق ہو گا۔

اسی طرح، مریضوں کی سہولت کے لیے ہسپتال میں چھوٹی گاڑیاں، سائیکل رکشہ یا الیکٹرک بائیکس متعارف کروائے جا سکتے ہیں، جو مخصوص فیس کے بدلے مریضوں اور تیمارداروں کو وارڈز تک پہنچا سکیں۔ معیاری میڈیسن اسٹورز، کینٹینز اور پھل فروشوں کو ٹھیکے پر جگہ دی جا سکتی ہے تاکہ معیاری سروس کے ساتھ ہسپتال کو آمدن بھی ہو۔ تیمارداروں کے لیے مسافر خانے تعمیر کیے جائیں تاکہ ہسپتال کے اندر اور باہر کا رش کم ہو اور لوگ آرام سے قیام کر سکیں۔

پانی کی فراہمی کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے سے ماحول دوست فضا فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان تمام تجاویز کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ ہسپتال انتظامیہ صرف علاج کی سہولیات تک محدود نہ رہے بلکہ انتظامی، معلوماتی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے نجی شراکت کو خوش آمدید کہے۔

julia rana solicitors

ایک صدی کی خدمات کا سفر اس وقت مکمل ہو گا جب لیڈی ریڈنگ ہسپتال ایک ماڈل طبی ادارہ بنے گا۔ ایسا ادارہ جہاں صرف علاج نہ ہو، بلکہ انسانیت، نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ خدمات کا امتزاج بھی ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہسپتال کی انتظامیہ جدید انتظامی اصولوں کو اپناتے ہوئے خدمات کو بہتر بنانے اور آمدن بڑھانے کے لیے نجی شعبے کو مؤثر طریقے سے شامل کرے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply