عوام اور سیاست/عرفان شہزاد

جس طرح پہلے زمانے میں دو قوموں کے درمیان جنگوں کی وجہ بادشاہوں کے امنگیں ہوا کرتی تھیں، عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا مگر مورخین غلط طورپر ان کے انفرادی یا گروہی مفاداتی اقدامات کو قوموں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں، جیسے عربوں یا افغانیوں نے ہندستان پر حملے کیے اور ہندوستان کی اقوام نے دفاع کیا وغیرہ، یہ جنگیں محض بادشاہوں کے درمیان ہوتی تھیں، یہی معاملہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان تھا۔ اقتدار میں شراکت کا جھگڑا ان دونوں کا تھا، اس جھگڑے کو لے کر چلنے والے ان کے کارکنان تھے، یہ لوگ عوام سے پوچھ کر ان کے نمائندے نہیں بنے تھے۔ عوام کو تو ووٹ کا حق ہی نہیں تھا۔ ووٹ کا حق ٹیکس گزاروں اور صاحبان جائیداد کو تھا اور ان کی تعداد آج بھی کم ہے، اس دور میں وہ کتنے رہے ہوں گے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی راے عوام اور سماج کی رائے اور ان کے برتاؤ عوام اور سماج کے برتاؤ کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ سیاست کے اکھاڑے کے کھلاڑی یہی تھے، اس لیے خبر ان کی بنتی تھی، تاریخ ان کی لکھی گئی اور سماج کو ان کے فیصلے اسی طرح بھگتنے پڑے جیسے بادشاہوں کے فیصلے اس دور کے عوام کو بھگتنے پڑتے تھے۔
تقسیم ہند کی سیاست ہرگز عوامی سیاست نہیں تھی، یہ سیاسی لیڈروں اور ان کے کارکنان کی آپسی جنگ تھی جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا اور اب تک وہ اسے بھگت رہے ہیں۔
آج کی نسلوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تاریخ اور نصاب میں جو مواد انھیں پڑھایا جاتا ہے یہ ان کی کہانی نہیں، نہ ان کی یا ان کے آبا کی کرنی ہے۔ وہ اب بھی اس کے وارث بننے سے انکار کر دیں۔
جمہوریت کے دور میں ممکن ہو گیا ہے کھیت، فیکڑی میں کام کرنے والے ایک ایک فرد کی راے سیاست اور حکومت میں موثر ہو سکے۔ انھیں سیاسی گروہی وابستگی سے پہلے اپنی، اپنی علاقے اور اپنے سماج کے مفاد کو مد نظر رکھ کر ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔
بیانیے اب عوام سے حکمران کو پہنچنے چاہییں نہ کہ لیڈروں کے دماغوں میں پیدا ہوئے خیالات ان کے آدرش بنیں۔ ہرگز نہیں۔ نظریاتی سیاست کو خود پر مکمل طور پر حرام قرار دے دینا چاہیے۔ سیاست و حکومت سراسر دنیوی مفادات کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیے۔ انھیں، سوائے اخلاقی اقدار کے، کسی آدرش، کسی نظریے پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہیے۔
جدوجہد محض سماجی اور مادی استحصال کے خلاف کرنی چاہیے۔ اور اس کے لیے بھی جان دینے کی ضرورت نہیں، اب ایسے ادارےاور ذرائع ابلاغ وجود میں آ چکے ہیں کہ ان کے ذریعے سے آپ راے عامہ ہموار کر کے اہل سیاست و حکومت کو اپنی بولی بولنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply